ولادیمیر پیوٹن کے تیسری بار صدر منتخب ہونے کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے ہزاروں مظاہرین ہفتے کے دِن ماسکو کے وسطی علاقے میں جمع ہوئے۔ تاہم، احتجاج اُس پیمانے پر نہ ہوپایا جیسا کہ حالیہ دنوں کے دوران دیکھنے میں آیا تھا، جِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید مخالفین مظاہروں میں شدت پیدا کرنے سے قاصر رہیں۔
بائیں بازوسے تعلق رکھنےوالے اپوزیشن راہنما، سرگئ ادلسوف اُن متعدد افراد میں سے ایک ہیں جنھیں ہفتے کو ماسکو سے گرفتار کیا گیا، ایسے میں جب ریلی ختم ہونےکو تھی اور اُنھوں نے عدم اجازت کےباوجود مارچ کی قیادت کی کوشش کی۔
سینٹ پیٹرزبرگ میں بغیر اجازت ریلی نکالنے پر تقریباً 40افراد کو گرفتار کیا گیا۔
مظاہرین مسٹر پیوٹن کے اختیارات کو چیلنج کر رہے ہیں، جِنھوں نے چار مارچ کو ہونے والے انتخاب میں 64فی صد ووٹ حاصل کیے۔
روس کے سابق وزیر اعظم اور اپوزیشن کے ایک راہنما، میخائیل مسکانوف نے کہا ہے کہ آج کا خاص پیغام یہ ہے کہ جن مبصرین نے ہمت کرکے ووٹنگ کے دِن اپنا کام سرانجام دیا، وہ ااس بات کی تائید کر رہے ہیں کہ رائے دہی کے دن کس نوعیت کی لاقانونیت جاری رہی اور یہ کہ یہی بات اِس احتجاجی مہم کا موجب بنی ہے۔
یہ احتجاج اُس وقت شروع ہوا جب دسمبر کے پارلیمانی انتخاب کے دوران مسٹر پیوٹن پر دھاندلی کے الزامات لگے، جِس میں اُن کی حکمراں یونائٹڈ رشیا پارٹی نے 450میں سے 238نشستیں جیتیں۔
مسٹر پیوٹن 2000ء سے 2008ء تک صدر کے عہدے پر فائز رہے، لیکن عہدے کے ضوابط کے مطابق وہ تیسری بار انتخاب نہیں لڑ سکتے تھے۔ یوں وہ وزیر اعظم بنے، جِس عہدے پر وہ اِس وقت فائز ہیں۔
دسمبر کے انتخاب کے بعد لاکھوں افراد نے ماسکو اور دیگر مقامات پر سڑکوں کا رخ کیا، جو کہ سویت روس کے خاتمے کے بعد سے لے کر اب تک کے بڑے احتجاجی مظاہرے تھے، جن میں دوبارہ انتخابات کرانے کا مطالبہ کیا گیا۔