روس کے وزیرِاعظم ولادی میر پیوٹن نے رواں ماہ کے آغاز میں ہونے والے پارلیمانی انتخابات کے نتائج کا دفاع کیا ہے اور انتخابی عمل کے دوران ہونے والی دھاندلیوں کے الزامات کو یکسر مسترد کردیا ہے۔
جمعرات کو براہِ راست نشر کیے گئے چار گھنٹے طویل ایک ٹی وی پروگرام کے دوران روسی وزیرِاعظم نے حزبِ اختلاف کی جانب سے موجودہ انتخابی نتائج کو کالعدم قرار دے کر نئے انتخابات کرانے کے مطالبہ کو بھی رد کردیا۔
وزیرِاعظم پیوٹن نے انتخابی نتائج کے خلاف احتجاجی مظاہرے منظم کرنے والوں کو مغرب کے لیے کام کرنے کا موردِ الزام ٹہرایا اور دعویٰ کیا کہ 4 دسمبر کو ہونے والے انتخابات کے نتائج عوامی رائے کا اظہار ہیں۔
روسی پولیس کے مطابق انتخابات میں ہونے والی مبینہ دھاندلیوں کے خلاف ہفتے کو دارالحکومت ماسکو میں 20 ہزار سے زائد افراد نے احتجاجی مظاہرہ کیا تھا جب کہ ملک کے کئی دیگر شہروں میں بھی مظاہرے منعقد ہوئے تھے۔ انتخابات میں وزیرِاعظم پیوٹن کی 'یونائیٹد رشیا' پارٹی نے اکثریت حاصل کی ہے۔
ٹی وی پروگرام میں وزیرِاعظم نے کہا کہ انتخابات کے خلاف ہونے والے مظاہرے اس وقت تک قابلِ قبول ہیں جب تک مظاہروں کے شرکاء کی جانب سے کسی قانون کی خلاف ورزی نہ کی جائے۔
براہِ راست نشر کیے گئے پروگرام کے دوران کئی افرادنے ٹیلی فون کرکے روسی وزیرِاعظم سے کئی تلخ سوالات بھی کیے جو روس میں ایک غیر معمولی بات ہے۔
انتخابات کے نتیجے میں روسی وزیرِاعظم کی مقبولیت کو اب تک کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور ان کی جماعت کو ماضی کے برعکس ایوانِ زیریں 'ڈوما' میں اپنی دو تہائی اکثریت سے محروم ہونا پڑا ہے۔
روس کے سیاسی افق پہ گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے غالب 'یونائیٹڈ رشیا' پارٹی کے رہنما انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کی تردید کر رہےہیں۔
وزیرِاعظم پیوٹن نے پروگرام کے دوران کہا کہ دھاندلی کے الزامات سے بچنے کے لیے انہوں نے آئندہ برس مارچ میں ہونے والے صدارتی انتخابات کے دوران پولنگ اسٹیشنوں میں کیمرے نصب کرنے کی تجویز دی ہے۔
امید ظاہر کی جارہی ہے کہ وزیرِ اعظم پیوٹن یہ انتخاب جیت کر تیسری بار ملک کے صدر بن جائیں گے۔
وہ اس سے قبل 2000ء سے 2008ء تک مسلسل دو مدت کے لیے صدر کےعہدے پر فائز رہ چکے ہیں تاہم مسلسل تیسری بار انتخاب پر عائد آئینی پابندی کے باعث انہوں نے ملک کی صدارت اپنے قریبی ساتھی دمیتری میدویدف کو سونپ کر خود وزارتِ عظمیٰ سنبھال لی تھی ۔