شام میں روس کی فضائی کارروائیوں کو ایک سال مکمل ہوگیا ہے اور کریملن کے ترجمان دمتری پیسکوف کا کہنا ہے کہ ان کارروائیوں کے لیے کوئی "مدت متعین" نہیں کی گئی۔
کریملن نے سرکاری طور پر یہ اعلان کیا تھا کہ شام میں اس کی فضائی مہم کا مقصد شدت پسند گروپ داعش کو ختم کرنا اور روس کو بین الاقوامی سطح پر پھیلتی دہشت گردی سے محفوظ رکھنا ہے۔
تاہم روس اور اس کے باہر بھی موجود غیرجانبدار مبصرین کا کہنا ہے کہ ماسکو بشار الاسد کو اقتدار میں رکھنے کے لیے ہر ضروری اقدام کر رہا ہے۔
شام کی صورتحال پر نظر رکھنے والی "سریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس" نے جمعہ کو خبر دی کہ روس کی فضائی کارروائیاں شروع ہونے کے بعد شام میں 3800 عام شہری موت کا شکار ہوئے جن میں ایک چوتھائی تعداد بچوں کی تھی۔
کریملن کے ترجمان پیسکوف نے آبزرویٹری کے اعداد و شمار کو مسترد کیا ہے۔
دریں اثناء عالمی ادارہ صحت نے کہا ہے کہ روس اور شام کی حکومت کی مشرقی حلب میں بمباری سے گزشتہ ایک ہفتے کے دوران 106 بچوں سمیت 338 افراد ہلاک ہوئے۔
کارنیگی ماسکو سینٹر سے وابستہ الیکسی مالاشنکو نے وائس آف امریکہ کی روسی سروس سے ایک انٹرویو میں کہا کہ ایک سال قبل روس نے شام میں فضائی مہم شروع کرتے ہوئے اعلان کیا تھا کہ وہ داعش کے خلاف فتح حاصل کرنا چاہتا ہے۔
"30 جون کو داعش نے اپنے معرض وجود میں آنے کی دوسری سالگرہ منائی، لہذا یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ آپریشن کس کے خلاف کیا گیا، ظاہر ہے اس کا جواب ہے کہ یہ بشارالاسد کی حمایت میں تھا۔"
مالاشنکو کے نزدیک شام میں روسی فوجی مہم کوئی نتیجہ حاصل نہیں کر سکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ "ہاں بشار الاسد برقرار ہیں"، اور روسی مہم سے پہلے اسد کی فوج کے تقریباً 50 فیصد اہلکار بھاگ گئے تھے اور 60 فیصد ان کی مسلح گاڑیاں تباہ ہو چکی تھیں۔
امریکہ کے صدر براک اوباما نے بھی ایک روز قبل مشرقی حلب میں روسی اور شامی طیاروں کی بمباری کی شدید مذمت کی تھی۔
حلب شام کا دوسرا بڑا شہر ہے اور اس کا مشرقی حصہ باغیوں جب کہ مغربی سرکاری فورسز کے کنٹرول میں ہے۔