رسائی کے لنکس

روس، ترکی اور ایران کا شام میں نیا آئین تشکیل دینے پر اتفاق


روس، ترکی اور ایران کے صدور
روس، ترکی اور ایران کے صدور

روس، ترکی اور ایران کے صدور نے اعلان کیا ہے کہ وہ شام میں نو سال سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے اور سیاسی بحران کے حل کے لیے شام میں نیا آئین تشکیل دینے پر متفق ہو گئے ہیں۔

ترک صدر رجب طیب ایردوان، روسی صدر ولادی میر پوٹن اور ایرانی صدر حسن روحانی نے شام کی صورتِ حال پر انقرہ میں سہ فریقی اجلاس کے بعد نیوز کانفرنس میں یہ اعلان کیا۔

رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ شام کے نئے آئین کی راہ میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو گئی ہیں اور اس ضمن میں ایک کمیٹی قائم کی جائے گی جو شام کا نیا آئین تحریر کرے گی۔

خیال رہے کہ شام میں نو سال سے جاری خانہ جنگی میں ایران اور روس صدر بشارالاسد کے اتحادی ہیں۔ جب کہ ترکی شام میں بشارالاسد کی حکومت کا تختہ الٹنے میں کوشاں باغیوں کی حمایت کرتا آیا ہے۔

روسی صدر ولادی میر پوٹن نے نیوز کانفرنس کے دوران بتایا کہ فریقین اس بات پر متفق ہو گئے ہیں کہ شام میں آئین سازی کے لیے ایک آئینی کمیٹی تشکیل دی جائے گی۔ جس میں حکومت، اپوزیشن اور غیر جانبدار سیاسی حلقوں کے نمائندے شامل ہوں گے تاکہ جنیوا میں یہ مل بیٹھ کر معاملات کو تیزی سے آگے بڑھائیں۔

شام میں القاعدہ سے منسلک گروپ بھی سرگرم ہے۔
شام میں القاعدہ سے منسلک گروپ بھی سرگرم ہے۔

ایران کے صدر حسن روحانی نے امید ظاہر کی ہے کہ شام میں 2020 یا 2021 میں نئے انتخابات ہو جائیں گے۔

فریقین نے سہ فریقی اجلاس کے دوران شام میں خانہ جنگی کے شکار علاقے ادلب میں صورتِ حال کو معمول پر لانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

فریقین نے ادلب میں اگست کے آخر میں جنگ بندی پر اتفاق کیا تھا جو خلاف ورزیوں کے باوجود تاحال برقرار ہے۔

یاد رہے کہ ادلب کو القاعدہ سے منسلک عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الاشام کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے۔ روس اور شام کی فوج نے اس علاقے میں چار ماہ تک بمباری کی تھی جس کے نتیجے میں مقامی آبادی کو بھی نقصان پہنچا تھا۔ بڑی تعداد میں لوگ پناہ کے لیے ترکی کی سرحد کے قریب پہنچ گئے تھے۔

ترکی نے شام میں جاری خانہ جنگی کے بعد سے اب تک لگ بھگ 36 لاکھ شامی مہاجرین کو پناہ دے رکھی ہے۔ ترک صدر یہ تنبیہ کر چکے ہیں کہ اگر مغربی ممالک نے مہاجرین کا بوجھ اٹھانے میں ترکی کا ساتھ نہ دیا تو وہ مغربی ممالک سے منسلک اپنی سرحد کھول دیں گے۔

شام کے معاملے پر مختلف آرا رکھنے والے ان تین ممالک کے مابین اس سلسلے کا یہ پانچواں اجلاس ہے۔

شام میں خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں سے ہوا تھا۔
شام میں خانہ جنگی کا آغاز 2011 میں حکومت مخالف مظاہروں سے ہوا تھا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے 'فرانس 24' کے مطابق نیوز کانفرنس کے دوران رجب طیب ایردوان نے ایک بار پھر امریکہ پر زور دیا کہ شام کے شمال مشرقی علاقوں میں سرگرم جنگجو 'وائی پی جے' ملیشیا کا قلع قمع کرنے کے لیے سیف زون کے قیام میں اس کا ساتھ دے۔

ترکی شام میں سرگرم وائی پی جے ملیشیا کو اپنی سلامتی کے لیے خطرہ سمجھتا ہے جب کہ امریکہ کا یہ مؤقف ہے یہ گروپ شام میں داعش کے خلاف سرگرم ہے۔

صدر ایردوان کا کہنا تھا کہ جب تک وائی پی جے کا خطرہ موجود رہے گا نہ صرف شام بلکہ خطے میں بھی امن و امان کا قیام ممکن نہیں ہو سکے گا۔

ترکی یہ ارادہ رکھتا ہے کہ شام کے شمال مشرقی علاقوں میں سیف زون قائم کر کے شامی مہاجرین کو وہاں آباد کرے اور یہ علاقہ ترکی کے زیرِ انتظام ہو۔ جب کہ ایران کا یہ مؤقف ہے کہ جب تک امریکہ کی فوج شام سے نہیں نکل جاتی اس وقت تک یہاں دیرپا امن قائم نہیں ہو سکتا۔

حسن روحانی کا کہنا ہے کہ شامی مہاجرین کو عارضی علاقوں میں آباد کرنے کی بجائے ایسے حالات پیدا کرنے چاہئیں کہ وہ اپنے اپنے علاقوں میں پرامن طور پر رہ سکیں۔

شام میں اب بھی داعش کے ہزاروں جنگجو موجود
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:35 0:00

یاد رہے کہ شام کا بحران مارچ 2011 میں اس وقت شروع ہوا تھا جب حکومت مخالفین مظاہرین دمشق، حلب اور دیگر بڑے شہروں میں جمع ہو گئے تھے۔ مظاہرین کا مطالبہ تھا کہ شام میں جمہوری اصلاحات نافذ کی جائیں۔

شامی حکومت نے مظاہرین کے خلاف کریک ڈاؤن کا آغاز کیا اور اس دوران شام میں جنگجو گروہ بھی متحرک ہوئے اور یوں خانہ جنگی کا آغاز ہوا۔

مبصرین کے مطابق شام میں خانہ جنگی کے باعث اب تک لاکھوں افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ جب کہ لاکھوں شامی شہری دیگر ممالک میں پناہ لے چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG