روس نے خبردار کیا ہے کہ وہ امریکہ سمیت 20 سے زائد مغربی ممالک سے اپنے سفارت کاروں کی بے دخلی کا "اسی طرح" جواب دے گا۔
روسی خبر رساں ادارے 'تاس' کے مطابق کریملن کے ترجمان دمیتری پیسکووف نے کہا ہے کہ انہیں امریکہ اور دیگر ملکوں کی جانب سے روسی سفارتی عملے کی بے دخلی پر "بہت افسوس" ہے۔
ترجمان نے کہا کہ روس کی وزارتِ خارجہ صورتِ حال کا جائزہ لے رہی ہے جس کے بعد وہ صدر ولادیمر پوٹن کو جوابی اقدامات تجویز کرے گی۔
دمیتری پیسکوف نے کہا کہ روسی حکومت پہلے بھی وضاحت اور تصدیق کرچکی ہے کہ برطانیہ میں مقیم سابق روسی جاسوس کو زہر دینے میں اس کا کوئی ہاتھ نہیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے پیر کو امریکہ میں مقیم روس کے 60 سفارتی اہلکاروں کو ملک سے نکلنے اور سیاٹل میں واقع روسی قونصل خانہ بند کرنے کا حکم دیا تھا۔
امریکی حکومت کا کہنا ہے کہ اس نے یہ اقدام نہ صرف اپنے قریب ترین اتحادی برطانیہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کے طور پر کیا ہے بلکہ یہ دنیا کو عدم استحکام کا شکار کرنے والے روس کے مسلسل اقدامات کا جواب بھی ہے۔
سفارتی اہلکاروں کی ملک بدری اور قونصل خانہ بند کرنے کا حکم صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے روس کے خلاف اب تک کیا جانے والا سب سے سخت اقدام ہے۔
اس سے قبل جب 2016ء کے انتخابات میں دھاندلی کے مبینہ الزامات پر اوباما انتظامیہ نے روس کے 35 سفارتی اہلکاروں کو امریکہ سے بے دخل کیا تھا تو اس کے جواب میں روس نے اپنے ہاں تعینات امریکی سفارتی عملے کے 755 اہلکاروں کو ملک سے نکال دیا تھا۔
امریکہ کے علاوہ کینیڈا، یوکرین اور یورپی یونین کے 20 سے زائد رکن ممالک نے بھی برطانیہ کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کرتے ہوئے پیر کو اپنے ہاں تعینات درجنوں روسی سفارتی اہلکاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
ان ملکوں سے ملک بدری کا سامنا کرنے والے روسی اہلکاروں کی تعداد 100 سے زائد بنتی ہے۔ امریکہ نے 60، یوکرین نے 13 جب کہ کینیڈا، جرمنی، فرانس اور پولینڈ نے چار، چار روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کرنے کا اعلان کیا ہے۔
اس سے قبل برطانیہ نے اپنے شہری اور سابق روسی کو زہر دینے کا الزام روس پر عائد کرتے ہوئے اپنے ہاں تعینات 23 روسی سفارت کاروں کو ملک بدر کردیا تھا۔
برطانیہ کی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے روسی سفارت کاروں کی ملک بدری کو ایک تاریخی قدم قرار دیا ہے۔
برطانیہ کے ساتھ کھڑے ہونے والے مغربی ممالک کا شکریہ ادا کرتے ہوئے تھریسا مے نے کہا کہ تاریخ میں اس سے قبل کبھی عالمی برادری نے اتنی بڑی تعداد میں روس کے انٹیلی جنس افسران کو ایک ساتھ ملک بدر کرنے کا اعلان نہیں کیا۔
انہوں نے کہا کہ عالمی برادری کا یہ قدم روسی عوام کے خلاف نہیں بلکہ صدرپوٹن کے حکومت کے خلاف ہے جو ان کے بقول مشترکہ اقدار کے خلاف محاذ آرائی کی مرتکب ہورہی ہے۔
چار مارچ کو برطانیہ کے شہر سالسبری میں کیے جانے والے زہریلی گیس کے حملے میں روسی نژاد برطانوی شہری سرگئی اسکری پال اور ان کی بیٹی یولیا شدید متاثر ہوئے تھے جو تاحال تشویش ناک حالت میں اسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔
سرگئی اسکری پال روسی فوج میں انٹیلی جنس افسر تھے جو برطانیہ کی خفیہ ایجنسیوں کے لیے ڈبل ایجنٹ کا کردار ادا کرتے رہے تھے۔ وہ 2010ء میں روس اور برطانیہ کے درمیان ہونے والے جاسوسوں کے تبادلے کے نتیجے میں برطانیہ منتقل ہوگئے تھے۔
برطانیہ نے اس حملے پر شدید ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے اسے اپنی خود مختاری اور سلامتی کے منافی اقدام قرار دیا تھا اور برطانوی وزیرِ اعظم تھریسا مے نے کہا تھا کہ اس بات کا قوی امکان ہے کہ اس حملے میں روس ملوث ہے۔
روس نے برطانیہ کے ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے مضحکہ خیز قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ جب تک برطانیہ استعمال کی جانے والی زہریلی گیس کا نمونہ روس کو نہیں دیتا اور معاملے کی تحقیقات کیمیائی ہتھیاروں کے نگران بین الاقوامی ادارے کے سپرد نہیں کرتا، اس بارے میں کوئی بات چیت نہیں کی جائے گی۔