امریکہ کو عام طورپر مختلف ثقافتوں اور نسلوں کا ایک ایسا میلٹنگ پاٹ کہا جاتا ہے جہاں مختلف عقائد اور رنگ و نسل کی روایات باہم مربوط ہوکرامریکی ثقافت میں ایک نئے رنگ میں ڈھل رہی ہیں ۔ لیکن اس تصویر کا ایک رخ یہ بھی ہے کہ ریاست میری لینڈ میں واقع جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی ایک تنظیم سالٹ کی ایک حالیہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ نائین الیون کے بعد دوسرے ملکوں سے آنے والوں کے خلاف نہ صرف تعصب کا رجحان دیکھنے میں آیا ہے بلکہ اسے بعض سیاسی پارٹیوں اور سیاست دانوں نے اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنے کی کوشش بھی کی ہے۔
اس سال پیش آنے والے کچھ واقعات جو بعض لوگوں کے لیے باعث حیرت تھے اور دوسروں کے لیے باعث فکر۔
امریکہ کا شہر نیو یارک۔ جہاں کئی ہزار لوگو ں نے گیارہ ستمبر 2001 کے دہشت گرد حملوں کے مقام کے قریب مسجد کی تعمیر کے خلاف احتجاج کیا۔
امریکہ کی ریاست فلوریڈا کا ایک چھوٹا سا شہر ۔ جہاں کچھ ہی عرصے میں ایک پادری کے قرآن پاک نذرآتش کرنے کے منصوبے نے امریکی صدر اور فوجی قیادت کو سخت پریشانی میں ڈال دیا۔
امریکہ کی ریاست ٹینی سی کا ایک شہر Murfreesboroجہاں کچھ لوگوں نے مسجد کی تعمیر کے خلاف نعرہ بلند کیا ۔
ان خیالات کی مخالفت کرنے والوں کی تعداد بھی کوئی کم نہیں تھی۔
لیکن امریکی ریاست میری لینڈ میں واقع ایک ادارے کے مطابق تعصبانہ خیالات سڑکوں پر ہی نہیں، بلکہ سیاسی حلقوں میں بھی ظاہر تھے۔
پریا مورتی کہتی ہیں کہ سیاسی امیدوار سمجھتے ہیں کہ اگر وہ غیر ملکیوں سے نفرت کے جذبات ظاہر کریں گے تو شاید انہیں زیادہ ووٹ ملیں۔ اور وہ انتخابات میں کامیاب رہیں۔ یہ خطرناک خیال ہے ، کیونکہ اگر وہ اس قسم کے نظریات کے ساتھ عہدہ سنبھالتے ہیں تو ممکن ہے کہ وہ ان پالیسیوں کی حمایت بھی کریں جو ہماری کمیونٹی کو منفی طور پر متاثر کرتی ہیں۔
پریا مورتی کا تعلق سالٹ نامی ایک ایسے ادارے سے ہے جو امریکہ میں رہنے والی جنوبی ایشیائی کمیونٹی کی صورت حال کا جائزہ لیتا ہے۔ سالٹ کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق گزشتہ 10 برسوں کے دوران سیاست دانوں نے اپنے بیانات میں بعض اوقات جنوبی ایشیائی کمیونٹی کے بارے میں منفی جذبات ظاہر کیے ہیں۔
بین الاقوامی انسانی حقوق کے وکیل اور کالم نگار ارسلان افتخار کہتے ہیں کہ اس میں سے بیشتر اوقات تو مختلف گروپوں میں تفریق پیدا کرنے کی کوشش کر کی جاتی ہے تاکہ لوگ سیاسی کامیابی حاصل کر سکیں اور اپنے امیدواروں کو منتخب کروا سکیں۔
سالٹ کی اس رپورٹ کے مطابق سیاسی بیانات میں نسل پرست خیالات اکثر کسی انتخاب سے قبل زیادہ دیکھنے میں آتے ہیں۔ سیاہ فام امریکیوں کے حقوق کے لیے ایک ادارے NAACP کے ہلری شیلٹن کا کہنا ہے سیاست دانوں کے یہ بیانات عموما لوگوں کے خوف اور غیر یقینی کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔
ان کا کہناہے کہ اور اس صورت میں ہم امریکی قوم کو ایسے اقتصادی مسائل سے گزرتا دیکھ رہے ہیں۔ جو نفرت پھیلانے والے گروہوں کے لیے بہترین موقع ہے۔وہ ان حالا ت میں اپنےنظریات اور خیالات لوگوں تک پھیلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں اپنے گروپوں میں بھرتی کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ان گروہوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ تمام مسائل کی ذمہ داری کسی ایک اقلیت پر ڈال دیں۔ حالانکہ یہ وہ مسائل ہیں جن کا سبھی کو سامنا ہے۔
لیکن اس سال سیاسی حلقوں میں نسل پرست خیالات ہاورڈ یونیورسٹی کے پروفیسر لورنزو مورس کے لیے باعث فکر نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ سیاسی حلقوں میں نسل پرستی اور نفرت کے جذبات کو ہوا دینے والوں کا تعلق امریکی کی قدامت پسند ری پبلیکن پارٹی سے ہےاور اس سال اس سیاسی جماعت کی مقبولیت میں اضافے کے ساتھ ساتھ ان کے یہ جذبات بھی واضح طور پر سامنے آئے۔
پروفیسر مورس کا کہنا ہے کہ مثال کے طور پر ٹی پارٹی کے ارکان امریکہ کی ری پبلیکن جماعت میں اقلیت میں ہیں۔ لیکن وہ زیادہ بڑھ چڑھ کر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ اور میڈیا میں بھی زیادہ نظر آتے ہیں۔ اس صورت میں جہاں سیاست دانوں کو زیادہ تجربہ بھی نہ ہو، وہ جذبات بھی سامنے آجاتے ہیں جو کسی دوسرے انتخابات میں شائدہ انتے واضح طور پر ظاہر نہ کیے جاتے۔
لیکن پروفیسر مورس کے مطابق نسل پرستی اور تعصب کے یہ جذبات زیادہ عرصے تک سیاست میں اس لیے قائم نہیں رہتے کیونکہ یہ نظریات بیشتر امریکیوں کو نامنظور ہیں۔
NAACP کے ہلری شیلٹن بھی غیر ملکیوں کو ایک پر امید پیغام دیا ہے کہ امریکی بننے کا مطلب ہےشہری حقوق کی جدوجہد میں شامل ہونا۔ سیاہ فام امریکیوں کی حیثیت سے ہم یہ بخوبی جانتے ہیں کہ شہریت حاصل کرنے کے 100 سال بعد آج بھی ہمیں شہری حقوق پانے کے لیے کتنی جدوجہد کرنی پڑتی ہے۔ ہم نئے تارکین وطن کو یہی کہیں گے کہ آپ بھی اس جدوجہد میں شامل ہوں۔
ان کا کہنا ہے کہ سیاسی حلقوں میں تعصب اور نسل پرست خیالات کا مقابلہ اسی صورت میں ہو گا، جب جنوبی ایشیائی کمیونٹی سیاست میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے گی، اور اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرے گی۔