کیرالہ پولیس نے ایسے پندرہ سو سے زائد افراد کو بدھ اور جمعرات کے روز گرفتار کیا ہے جنھوں نے سپریم کورٹ کے حکم پر ہر عمر کی خواتین کو سبری مالا مندر میں داخلے سے روکا اور پُر تشدد کارروائیاں کیں۔ یہ گرفتاریاں ارنا کلم، کوزی کوڈ، پلکڈ، تھری سور، کوٹائم اور الوپوزہ میں ہوئی ہیں۔
پولیس نے 210 افراد کے خلاف لُک آوٹ نوٹس جاری کیا ہے اور دو ہزار کے خلاف کیس رجسٹرڈ کیا ہے۔
گزشتہ 800 برسوں سے دس سے پچاس سال تک کی عمر کی خواتین پر سبری مالا مندر میں داخلے پر پابندی عاٰٰئد تھی۔ مندر کے منتظمین کا کہنا تھا کہ یہ ماہواری کی عمر ہوتی ہے اور ایسی خواتین کے مندر میں جانے سے لارڈ ایپّا کی، جو کہ مجرد ہیں توہین ہو گی۔
لیکن سپریم کورٹ نے ایک عرضداشت پر سماعت کے بعد ایک تاریخی فیصلہ سناتے ہوئے اس پابندی کو ختم کر دیا اور مندر کے دروازے ہر عمر کی خواتین کے لیے کھول دیے۔
لیکن اس کی شدید مخالفت کی گئی۔ چھ دنوں تک مسلسل مندر کی جانب جانے والے راستے پر تشد آمیز کارروائیاں ہوتی رہیں۔ صدیوں پرانی اس روایت کی پاسداری کے نام پر مذکورہ عمر کی خواتین کو مندر میں جانے سے روکا گیا اور جنھوں نے داخلے کی کوشش کی انھیں جبراً واپس کر دیا گیا۔
پرتشدد ہجوم نے خاتون صحافیوں کو بھی ہدف بنایا اور انھیں رپورٹنگ سے روکا۔ انھوں نے سرکاری املاک کو بھی نقصان پہنچایا۔ تاہم ایک خاتون کو اس وقت جانے کی اجازت دی جب اس نے اپنا آدھار کارڈ دکھا کر یہ ثابت کیا کہ اس کی عمر پچاس سال سے زائد ہے۔
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم ایک سینئر سماجی کارکن شبنم ہاشمی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ بہت افسوس ناک امر ہے کہ سپریم کورٹ کے حکم کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔ حالانکہ اس سے قبل ممبئی کی حاجی علی درگاہ میں بھی خواتین کے داخلے کی اجازت عدالت نے دی تھی۔
انھوں نے کہا کہ جب بھی سپریم کورٹ سے کوئی فیصلہ آتا ہے تو اس کو پلٹنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ بقول ان کے ملک میں ایک ایسا طبقہ پیدا ہو گیا ہے جس نے یہ طے کر رکھا ہے کہ وہ ملک میں قانون کی حکمرانی نہیں چلنے دے گا۔ اس سے یہ اشارہ ملتا ہے کہ ملک کے حالات اچھے نہیں ہیں۔
پولیس نے مزید گرفتاریوں کا عندیہ دیا ہے۔
جبکہ ریاست کی اصل اپوزیشن جماعت بی جے پی نے اس اجتماعی گرفتاری کی مذمت کی ہے اور ا س کے خلاف جمعہ کے روز ریاست گیر احتجاج کا اعلان کیا ہے۔
بی جے پی نے اس نے فیصلے کے فوراً بعد ایک بڑی احتجاجی ریلی نکال کر اس کی مخالفت کی تھی۔ اس نے دیگر ریاستوں جیسے کہ کرناٹک، تمل ناڈو اور آندھرا پردیش میں بھی احتجاج کا منصوبہ بنایا ہے۔