رسائی کے لنکس

بھارت: گئو رکھشا سے کرکٹ کی گیندوں کی صنعت کس طرح متاثر ہو رہی ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔

بھارت میں کرکٹ کی مقبولیت اور اس کے جذباتی لگاؤ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس کھیل کو وہاں ’مذہب‘ کا درجہ حاصل ہے۔ تاہم اسی کرکٹ کی گیند تیار کرنے کی صنعت ایک مذہبی معاملے کی وجہ سے خطرات کی زد میں رہتی ہے۔

یہ کہانی ہے میرٹھ کے بنٹی ساگر کی ہے جو کرکٹ کی گیند کے کارخانے میں کام کرتے ہیں۔ گیندوں کی سلائی کرتے ہوئے انہیں مسلسل تشویش کا سامنا رہتا ہے کیوں کہ بھارت میں ہندو مذہب سے تعلق رکھنے والی اکثریت گائے کو مقدس تسلیم کرتے ہیں جب کہ گیند کی تیاری میں اس کی کھال استعمال کی جاتی ہے۔

کرکٹ گیند کی تیاری کے کام میں صفائی اور محنت درکار ہوتی ہے جب کہ اس کے کاریگروں کو اجرت بھی کم ملتی ہے اور بھارت میں گائے کے تحفظ کے لیے سرگرم ہندو قوم پرست کارکنان کی جانب سے اسے ذبح کرنے پر پابندی لگانے کی مہم نے اس کا منافع مزید کم کردیا ہے۔

بنٹی ساگر کو امید تھی کہ تعلیم حاصل کرکے وہ الگ کریئر کا انتخاب کریں گے۔ لیکن والد کی موت کی وجہ سے انہیں بھی چمڑے سے گیند کی تیاری ہی کا کام کرنا پڑا۔ اب وہ اپنے گھر کے لیے روزگار کمانے والے واحد فرد ہیں۔

بنٹی ساگر خود بھی ایک ہندو ہیں۔ وہ فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات کرتے ہوئے کہتے ہیں انہیں اپنا کام کرتے ہوئے کوئی منفی احساس نہیں ہوتا۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر وہ اپنے کام کو خراب سمجھیں گے تو کھائیں گے کیا؟

بنٹی ساگر خود بھی کرکٹ دیکھنے کے شوقین ہیں لیکن بھارت میں ہونے والے ورلڈ کپ کی وجہ سے ان کے کارخانے میں اتنے آرڈر آچکے ہیں کہ وہ خود میچز نہیں دیکھ سکیں گے۔

بھارت میں کرکٹ گیند کا سب سے زیادہ کام بنٹی ساگر کے آبائی علاقے میرٹھ میں ہوتا ہے جو دارالحکومت نئی دہلی سے کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے۔

سینسپیریلز گرین لینڈ نامی کمپنی بھارت میں ہونے والی ٹیسٹ میچز کے لیے گیندیں تیار کرنے والی سب سے بڑی کمپنی ہے۔ جب کہ دیگر چھوٹے بڑے کارخانے مقامی کرکٹ ایسوسی ایشنز کی ضرورت پوری کرتے ہیں۔

میرٹھ بھارت میں کرکٹ کی گیندوں کی تیاری کا سب سے بڑا مرکز ہے۔
میرٹھ بھارت میں کرکٹ کی گیندوں کی تیاری کا سب سے بڑا مرکز ہے۔

میرٹھ کی معیشت میں کرکٹ گیند کی صنعت ریڑھ کی ہڈی کے مانند ہے۔ یہاں اس صنعت سے مختلف 350 کاروبار منسلک ہیں۔ یہاں اس کاروبار کی کامیابی کی بنیادی وجہ کم اجرت پر کام کرنے والی افرادی قوت ہے۔ باقی دنیا میں گیند کی تیاری کے لیے مشینوں کا استعمال ہوتا ہے جب کہ یہاں اب بھی ہاتھوں سے گیندوں کی تیاری کے مراحل پورے کیے جاتے ہیں۔

ذات پات اور کام

گیندوں کی صنعت کے زیادہ تر کاریگروں کا تعلق جاٹو کمیونٹی سے ہے جو پیشوں اور سماجی مرتبے کی بنیاد پر قائم ہندوؤں میں صدیوں سے رائج ذات پات کی نظام میں سب سے نیچے تصور کیے جاتے ہیں۔

جاٹو بھارت میں بسنے والی 20 کروڑ سے زائد آبادی والی دلت ذاتوں میں ایک بڑی تعداد رکھتے ہیں۔

اس قدیم سماجی نظام کی وجہ سے دلتوں کو ’اچھوت‘ تصور کیا جاتا تھا۔ تاہم 1950 میں قانون دان اور دلت حقوق کے لیے کام کرنے والے رہنما ڈاکٹر بھیم راؤں امبیڈکر نے بھارت کا آئین لکھا تو چھوت چھات کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔

دلتوں کے لیے ڈاکٹر امبیڈکر کی جدوجہد کی وجہ انہیں اس کمیونٹی میں دیوتاؤں جیسا احترام دیا جاتا ہے۔ میرٹھ میں کرکٹ کا سامان تیار کرنے والے اکثر کارخانوں میں امبیڈکر کی تصویریں آویزاں نظر آتی ہیں۔

بھارتی آئین میں ذات پات کے نظام کے باعث برتے جانے والے امتیازی سلوک کے تدارک کی کوشش کی گئی ہے۔ تاہم صدیوں پرانے رسوم و رواج کی وجہ سے آج بھی ذات پات کسی شخص کے سماجی مرتبے اور رشتوں کے تعین میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔

بھارت میں 2011 میں ہونے والے سروے کے مطابق ملک کی آبادی میں ایسے لوگوں کی تعداد چھ فی صد سے بھی کم تھی جو اپنی ذات یا برادری سے باہر شادی کرتے ہیں۔

قانون میں اس فرق کو ختم کرنے کے لیے تعلیم اور ملازمت کے مواقع میں دلتوں کے لیے مخصوص نشستوں جیسا بندوبست کیا گیا ہے۔

موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے کرکٹ کی گیندیں بنانے والے کاریگر اپنے بچوں کو اس کام سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔ لیکن میرٹھ میں بڑھتی ہوئی بے روز گاری کی وجہ سے کئی اعلیٰ ذاتوں سے تعلق رکھنے والے اس ’ناپاک‘ کام سے متعلق خاموش رہنے پر مجبور ہیں۔

گائے کو ذبح کرنے پر پابندی کے مطالبات کی وجہ سے چمڑے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔
گائے کو ذبح کرنے پر پابندی کے مطالبات کی وجہ سے چمڑے کی قیمتوں میں اضافہ ہوا۔

سرخ لکیر

سن 1947 میں برطانیہ سے آزادی کے وقت میرٹھ بھارت میں کھیلوں کے ساز و سامان کی صنعت کا مرکز تھا۔ تاہم برصغیر کی تقسیم کے پیدا ہونے والے حالات کے باعث کئی کاریگر پاکستانی شہر سیالکوٹ منتقل ہو گئے۔

میرٹھ میں گیندیں تیار کرنے والے ایک کارخانے کے مالک بھوپندر سنگھ بتاتے ہیں کہ یہ کام ان کے دادا نے شروع کیا تھا اور وہ اسے مزید بڑھانا چاہتے تھے. لیکن بھارت میں بدلتی سیاسی فضا نے اس صنعت کے پھیلاؤ میں کئی مشکلات کھڑی کردی ہیں۔

سن 2014 میں وزیرِ اعظم مودی کے منتخب ہونے کے بعد سے ہندو کارکن مویشیوں کے ذبیحہ کو روکنے اور غیر قانونی قرار دینے کے لیے کوششیں کررہے ہیں۔ اس کی وجہ سے مویشیوں کی تجارت، گوشت اور کھال کی فروخت کا کاروبار متاثر ہو رہا ہے جس سے زیادہ تر اقلیتی مسلم کمیٹی وابستہ ہے۔

میرٹھ سمیت مختلف بھارتی شہروں میں گائے کی تجارت اور گوشت کے کاروبار سے منسلک ہونے کے شبہے پر ہجوم کی جانب سے تشدد کرنے جیسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

ان حالات کی وجہ سے گیندوں کی تیاری کے لیے درکار چمڑے کی قیمتیں دگنی ہوگئی ہیں کیوں کہ اب اس کے لیے زیادہ تر بھینس اور بیل وغیرہ کی کھال کا انتظام کیا جاتا ہے۔

اس کے باوجود گیندوں کی تیاری سے لے کر اس کی فروخت تک ہر کام سے منسلک لوگوں کو کئی بار یہ یقین دلانا پڑتا ہے اس کی تیاری میں گائے کی کھال کا استعمال نہیں ہوا۔

فورم

XS
SM
MD
LG