کراچی میں قربانی کے جانوروں کے لئے لگائی گئی سب سے بڑی منڈی کے نصیب جاگ اٹھے ہیں۔ ابھی چند سال پہلے کی بات ہے اندرون سندھ ، پنجاب اور ملک کے دیگر علاقوں سے آئے ہوئے سیدھے سادھے بیوپاری چارپائیوں اور عارضی چھپروں میں روکھی سوکھی روٹی کھاتے جانوروں کو بیچنے کے لئے گاہکوں کے پیچھے بھاگتے تھے، ان کی منت سماجت کیا کرتے تھے اور ہر ممکن کوشش کرتے تھے کہ گاہک کسی طرح خالی ہاتھ نہ جائے۔ یہاں تک کہ کم سے کم منافع میں بھی قربانی کے جانور بیچنے پر آمادہ ہوجاتے تھے ۔۔۔
۔۔۔مگر اب یہ سب باتیں گئے وقتوں کی یادیں بن گئی ہیں۔ اب کہاں کی منت سماجت اور کہاں کی سودے بازی!! دوہزار دس کی منڈی کے طور طریقے بدل گئے ہیں۔ آج ہر طرف انگریزی میں بورڈ لگے ہیں، انٹرنیٹ پر بھی جانوروں کی خریدو فروخت سے متعلق معلومات موجود ہیں، ویب سائٹ کے پتے، ای میل ایڈریسز ، نہایت مہنگے اور سجے سجائے شامیانے، قنّاتیں، بینک ، کریڈیٹ کارڈز، ڈییٹ کارڈز اور چیکس کے ذریعے بھی لین دین جاری ہے۔ ہوسکتا ہے پانچ دس سالوں پہلے آپ کو پلاسٹک منی کے ذریعے بکروں کی خریداری مذاق اور نا ممکن لگتی ہو مگر اب حقیقت میں ایسا ہورہا ہے۔ علاقائی لب و لہجے کے بیوپاری اب روز بہ روز کم اور پڑھے لکھے، انگریزی بولتے، لاکھوں ، کروڑوں اور اربوں کی سرمایہ کاری کرتے انویسٹرز اس منڈی کے مالک ہوگئے ہیں۔
حسیب الرحمن بھی ایک سرمایہ کار ہی ہیں۔ ان کا کہنا ہے "لائیو اسٹاک ملکی معیشت کا ایک اہم سیکٹر ہے۔ کراچی میں لگنے والی جانوروں کی یہ سب سے بڑی منڈی ہے ، سرمایہ کاروں کی آمد سے اس منڈی میں صحت مند مقابلے کی فضاء قائم ہوئی ہے۔ آج آپ کو اس منڈی میں ایسے انویسٹرز بھی مل جائیں گے جن کے اصل کاروبار کچھ اور ہیں مگر وہ خاص الخاص عیدالاضحی کے لئے سال بھر فارم ہاوٴس کا خرچہ برداشت کرتے ہیں ۔ وہاں سارا سال پلنے والا جانور جب منڈی میں آتا ہے تو سارے لوگ اسے دیکھنے کے لئے امڈ پڑتے ہیں۔ فارم ہاوٴسز کے یہی جانور آج لاکھوں روپے میں فروخت ہورہے ہیں"۔
منڈی کے ایک اور انویسٹرسید عماد نے وی او اے کو بتایا "بڑے بڑے فارم ہاوٴسز اور شہر کے نامور کیٹل ہاوٴسز کے پروردہ فربہ اور قدآور جانوروں کی دیکھ بھال بھی عام جانوروں سے ہٹ کر کی جاتی ہے۔ عام جانوروں کے مقابلے میں فارم ہاوٴسز میں پلنے والے جانوروں کے کھانے بھی مختلف ہوتے ہیں۔ انہیں مہنگی اور اچھی نسل کی کھل، اناج اور خاص قسم کی جڑی بوٹیوں والی خوراک کھلائی جاتی ہے ، جس سے جانور نہایت صحت مندہوتا ہے اسی وجہ سے یہ جانور بھی عام جانوروں سے مختلف ہوتے ہیں"۔
گائے کی خریدار ی کے لئے گولیمار سے آئے ہوئے ایک خریدار مظہر محمود نے بتایا " اب منڈی کے طور طریقے ہی بدل گئے ہیں۔ اب کریڈیٹ پر بھی جانور دستیاب ہیں، اب یہ مسئلہ مختلف ہے کہ آیا کریڈیٹ پر قربانی کی جاسکتی ہے یا نہیں۔ میں سن 76ء سے یہاں آرہا ہوں ان 34 سالوں میں سب کچھ ہی بدل گیا۔ پہلے گلی محلوں میں ہی منڈی لگا کرتی تھی اب شہر میں صرف ایک جگہ لگتی ہے۔ مجھے یاد ہے میں نے سن 76ء میں تیرہ سو روپے کی گائے خریدی تھی اب تیرہ سو روپے جانور کو گھر پہنچانے والا ٹرک ڈرائیور لے لیتا ہے"۔
ایک اور خریدار صارم بشار کا کہنا ہے "میں دوپہر بارہ بجے سے منڈی میں ہوں ۔ اس بار سیلاب کی وجہ سے لگتا تھا کہ جانور مہنگے ہوں گے مگر میں نے گھوم پھر کر دیکھا ہے کہ ہر رینج کا جانور موجود ہے۔ جانور کی کم سے کم قیمت پچیس ہزار اور زیادہ سے زیادہ کی کوئی قید نہیں۔ بارہ ایکٹر طویل رقبے پر واقع اس منڈی میں سندھ، پنجاب، بھارت، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے جانور موجود ہیں۔ جیسی قیمت ویسا جانور"۔
وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی ہوئی منڈی کی ایک منفرد بات یہ بھی ہے کہ یہاں خواتین خریداروں کی اس بار کوئی کمی نہیں۔ شاید فیشن ایبل اور پڑھی لکھی خواتین کچھ سال پہلے تک منڈی میں آتی ہوئی گھبراتی ہوں گی مگر آج وہ خریداری نہ بھی کریں تو دیکھنے کا شوق انہیں منڈی آنے پر مجبور کررہا ہے۔
ایک نوجوان لڑکی کا کہنا تھا کہ آج کی خواتین ہر شعبے میں مردوں کے شانہ بشانہ ہیں تو منڈی میں کیوں نہ ہوں!!آخر خواتین کے نام کی بھی تو قربانی کی جاتی ہے پھر ہم قربانی کے جانور کو اپنی پسند سے کیوں نہ خریدیں"؟
منڈی میں آئے ہوئے خریداروں کو لبھانے کے لئے جگہ جگہ نہایت خوبصورت اور نمایاں جگہوں پر بڑے بڑے ہورڈنگز نصب کئے گئے ہیں۔ ایسے ہی ایک بورڈ کے بارے میں حسیب الرحمن نے بتایا کہ اس بورڈ پر کم از کم پانچ لاکھ روپے خرچ آیا ہوگا۔ جہازی سائز اور جدید طریقے کا یہ بورڈ ایک جگہ نہیں کئی جگہ نصب ہے۔ اس سے اندازہ لگالیں کہ کس قدر سرمایہ کاری کی گئی ہوگی"۔
منڈی میں کچھ بورڈز ایسے بھی نصب ہیں جن پر جانوروں کے فلمی ستاروں سےمنسوب نام لکھےہیں مثلاً ایک نہایت خوب صورت بکرے کا نام ‘شاہ رخ خان’ ہے۔ ایک کو ‘رانی’ ایک کو ‘انمول رتن’ اور ایک کو ‘دبنگ’ کا نام دیا گیا ہے۔ غالباًیہ نام خریداروں کو لبھانے اور خریداری پر مائل کرنے کے لئے لکھے گئے ہیں۔
دوسری جانب کچھ جانوروں کی جلد پر مقدس نام ابھرے ہونے کا بھی دعویٰ کیا گیا ہے۔ عموماً اس طرح کی پبلسٹی کا مقصد جانوروں کی قیمت بڑھانا ہوتا ہے حالانکہ اس کا قربانی کے ثواب میں اضافے یا کمی سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
منڈی میں خریدے گئے جانوروں کی تصاویر اتارنا بھی جدید رجحانات میں سے ایک رجحان بنتا جارہا ہے۔ اس اضافے کی ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ اب کم و بیش ہرموبائل میں کیمرہ آنے لگا ہے لہذا جس کو بھی جو جانور پسند آیا اس کی تصویر بنالیتا ہے۔ کچھ لوگ فوٹو سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے موبائل سے جانوروں کی ویڈیو فلم بھی بناتے ہوئے نظر آنے لگے ہیں حالانکہ کچھ سال پہلے تک نہ ویڈیو کا رواج تھا نہ فوٹو گرافی کا۔