لندن کے میئر صادق خان آج اپنے پہلے بین الاقوامی دورے پر فرانسیسی دارالحکومت پیرس پہنچے ہیں جہاں انھوں نے شہر کی میئر این ہیدالگو کے ساتھ کمیونٹی کے انضمام پر تبادلہ خیال کیا اور فرانس کی طرف سے عائد 'برقینی پر پابندی' کی مذمت کی ہے۔
فرانس کے بیشتر شہروں کے میئروں نے ساحل سمندر پر برقینی پہننے پر یہ کہہ کر پابندی عائد کر رکھی ہے یہ ملک کے سیکولرزم کے قانون کے منافی ہے۔
برقینی دراصل خواتین کے لیے اسلامی طرز کا تیراکی کا لباس ہےجس میں حجاب بھی شامل ہےجبکہ مکمل طور پر جسم ڈھانپنے والے تیراکی کے لباس کو برقعہ اور بیکنی کے ناموں کی مناسبت سے برقینی کا نام دیا گیا ہے۔
لندن کے میئر صادق خان کا بیان اس وقت سامنے آیا ہےجب منگل کے روز فرانسیسی مسلح پولیس اہلکاروں نے نیس کے ساحل پر ایک خاتون کو برقینی پہننے پرسرعام حجاب اور لباس کا کچھ حصہ اتارنے پر مجبور کیا تھا۔
اس واقعہ کی تصاویر نے سوشل میڈیا کے صارفین میں غم و غصہ پیدا کیا ہے۔
صادق خان نے پیرس کے دورے کے دوران ایک بیان میں کہا کہ''مجھے حقوق نسواں کا حمایتی ہونے پر فخرہے اور مجھے نہیں لگتا ہے کہ کسی کو عورتوں سے یہ کہنا چاہیئے کہ وہ کیا پہن سکتی ہیں اور کیا نہیں پہن سکتی ہیں''
انھوں نے مزید کہا کہ ''میں اسے درست نہیں سمجھتا اور میں یہ نہیں کہہ رہا ہوں کہ ہم نے اس معاملے میں بہتر ہیں، لیکن لندن میں رہنے والوں کی ایک اچھی بات یہ ہے کہ ہم نا صرف آپسی فرق کو برداشت کرتے ہیں ،اس کا احترام کرتے ہیں اس کو گلے لگاتے ہیں اور اس کو مناتے بھی ہیں۔''
ادھر نیس شہر کے نائب میئر روڈی سالس نے بی بی سی کے ایک پروگرام میں پابندی کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ ساحل پر برقینی پہننا ایک اشتعال انگیزی ہے کیونکہ جب لوگ کسی کو برقنی میں ملبوس دیکھتے ہیں تو وہ خود کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں۔
انھوں نے مزید کہا کہ ایک راہعہ کو بھی ساحل سمندر پر مذہبی لباس پہننے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
لندن میں انسانی حقوق کی تنظیم نے ایک ٹویٹ میں اس واقعہ کی مذمت کی ہے اور کہا ہے کہ ہم برقنی پر پابندی سے متاثرہ خواتین کے ساتھ کھڑے ہیں۔
برقنی پر پابندی کے خلاف آج مرکزی لندن میں واقع فرانسیسی سفارت خانے کے باہر ایک زبردست مظاہرہ کیا گیا ہے۔مظاہرین نے ہاتھوں میں پلے کارڈز اور بینرز اٹھا رکھے تھے جن پر یہ نعرہ درج تھا کہ 'وہ پہنو جو تم چاہتے ہو'، جبکہ بعض پلے کارڈز پر اسلام فوبیا کےخلاف خبردار کیا گیا تھا۔
فرانسیسی سفارت خانے کے باہر مظاہرین نے اپنا حتجاج منفرد انداز میں ریکارڈ کرایا ہے جس میں خواتین برقینی اور تیراکی کا لباس پہن کر شریک ہوئیں اور سفارت خانے کے سامنے ساحل سمندر کا منظر پیش کرتے ہوئے ریت بچھائی اور دھوپ سینیکی۔
فرانس کی اعلیٰ ترین عدالت کونسل آف اسٹیٹ نے آج برقینی پر پابندی کو ختم کرنے کے لیے فرانس میں انسانی حقوق کی تنظیموں کی طرف سے ڈالی گئی دراخواستوں کی جانچ پڑتال کی ہے۔
فرانس میں سنہ 2011 سے عوامی مقامات پر برقعہ اور چہرے پر نقاپ پہننے پر پہلے سے پابندی عائد ہے۔
پابندی کی مخالفت کرنے والی انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس طرح مسلمانوں کے جذبات مجروح ہوتے ہیں جس سے شدت پسندی کے خطرے میں اضافہ ہوسکتا ہے۔