ہر سال جنوبی ایشیا سمیت وسطی ایشیا سے لاکھوں کی تعداد میں لوگ غیر قانونی طریقے سے بہتر مستقبل اور اچھی زندگی گزارنے کے لئے یورپ سمیت دنیا کے مختلف ممالک کا رخ کرتے ہیں۔
ان میں سے زیادہ تر لوگ اپنی منزل تک پہنچنے سے پہلے ہی یا تو سر حدی حکام کی گرفت میں آ جاتے ہیں یا پھر وہ کسی نہ کسی حادثے کا شکار ہوکر راستے میں ہی ہلاک ہو جاتے ہیں۔
ایسے ملک جہاں امن کی صورت حال خراب ہے اور بےروزگاری کی سطح بھی بلند ہے وہ سے بعض لوگ بہتر مستقبل کی امید میں غیر قانونی طریقے سے دوسرے ممالک جاتے ہیں۔
اس انسانی المیے پر حال ہی میں ایک فلم ریلیز ہوئی ہے جس کی ہدایت کاری ایران سے تعلق رکھنے والے قربان کریمی نے کی ہے۔ سفر نامی فلم کی کہانی بھی ایسے ہی بد نصیب افراد کے گرد گھومتی ہے جو خوابوں امیدوں اور خدشات کے ساتھ غیر قانونی طور پر ایران، عراق، پاکستان اور افغانستان سے آتے ہیں۔
ان سب لوگوں کی منزل بہتر مستقبل کی تلاش میں ایک محفوظ ملک میں پناہ حاصل کرنا ہوتا ہے۔ ان کرداروں کی منزل آسٹریلیا ہے۔ فلم میں دکھا یا گیا ہے کہ یہ لوگ ان جانے میں کتنا بڑا خطرہ مول رہے ہیں۔
اس فلم کی کلیدی کرداروں میں سے ایک پاکستان کے شہر کوئٹہ سے تعلق رکھنے والا 16 سال کا بلال ہے۔ جو دہشت گردی کی وجہ سے بہتر زندگی کے حصول کے لئے آسٹریلیا کا رخ کرتا ہے۔
عراق کے شہر بصرہ کا ندیم اپنے خاندان کا واحد کفیل روزی کمانے کے لئے اس ملک کا رخ کرتا ہے۔ تہران سے سارہ اپنے چھوٹے بیٹے عامر اور اپنے بھائی نیمہ اور اسکی بیوی مرجان کے ساتھ اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں تاکہ آسٹریلیا پہنچ سکیں جبکہ انڈونیشیا میں پناہ گزین کے طور پر رہنے والا افغان باشندہ نجیب اللہ اپنے ملک میں طالبان اور نا مصائب حالات کے پیش نظر اپنا گھر چھوڑنے پر مجبور ہوا اور اب آسٹریلیا جانا چاہتا ہے۔
یہ لوگ علی نامی انسانی سمگلر کے ذریعے ایک کشتی میں اپنے سفر کا آغاز کرتے ہیں۔ راستے کا خطرہ سمندری لہروں کا خوف دل میں ہونے کے باوجود صرف پر امن آزاد اور بہتر زندگی گزارنے کے لئے آسٹریلیا کا رخ کرتے ہیں۔ تاہم آسٹریلیا پہنچنے سے پہلے ہی ان کی کشتی الٹ جاتی ہے اور سب پانی میں ڈوبنے لگتے ہیں۔ اس کے بعد ہر کوئی اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتا ہے ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں ہوتا ہے کہ اپنے خاندان ،عزیز و اقارب اور دوستوں سے الگ ہو کر ایسے مستقبل کا سامنا کرنا پڑتا ہو گا۔
سفر نامی فلم کے ہدایت کار قربان کریمی نے وی او اے اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ “میں نے اس ک لیے ایسے کرداروں کو ڈھونڈ ا ۔ جن کے خاندان ،عزیز و اقارب یا پھر خود انکے ساتھ اس قسم کے حالات پیش آئے ہوں۔ فلم کی کہانی حقیقت پر مبنی ہے اس فلم کو پاکستان ،ایران،عراق اور افغانستان میں مختلف ٹی وی چینلز پر دکھایا گیا ۔
قربان کریمی کا مزید کہنا تھا کہ اگر میں ایمانداری سے کہوں تو بات سچ ہے کہ لوگوں نے اس پر مثبت رد عمل کا اظہار کیا ۔ اور ساتھ میں سوشل میڈیا پر بھی لوگوں نے اس کو بے حد پسند کیا کیونکہ یہ ایک سبق آموز فلم ہے لیکن بعض لوگوں نے اس کو مختلف ذاویے سے بھی دیکھا۔
قربان کریمی کا فلم میں انسانی اسمگلروں کے بارے میں کہنا تھا کہ یہ لوگ چند پیسوں کی خاطر تارکینِ وطن کے ساتھ بے دردی کا سلوک کرتے ہیں۔ اپنی آنکھوں میں بہتر مستقبل کے خواب سجائے ان لوگوں کی امیدیں ان کی سانسوں کے ساتھ سمندر کی بے رحم لہروں میں ڈوب جاتی ہیں۔