پاکستان کے نوجوان کوہ پیما ساجد سدپارہ کہتے ہیں کہ وہ اس روز بیس کیمپ کے پاس ہی تھے جب انہیں ان کی ٹیم سے پتہ لگا کہ اوپر کسی پاکستانی پورٹر کی ہلاکت ہوگئی ہے۔ اس پورے واقعے کے بارے میں جان کر اور اس واقعے کی ایک وائرل وڈیو دیکھنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ یہ انسانیت سوز ہے کہ کوہ پیما کسی دم توڑتے شخص کے اوپر سے گزرکر جا رہے ہیں حالانکہ رسی فکسڈ ہونے کی وجہ سے ٹریکنگ اتنی دقت طلب نہیں رہتی کسی حسن کے جسم کو پھلانگے بغیر آگے سفر ناگزیر ہو۔
انہوں نے کہا کہ محمد حسن نامی پورٹر کے ساتھ ان کے اپنے دو دوستوں کے علاوہ ناروے سے تعلق رکھنے والی کرسٹین ہاریلا کے فوٹوگرافر گیبرئیل رکے تھے۔ انہوں نے ہی انہیں راستے سے ہٹایا، پانی پلانے اور جانبر کرنے کی کوششیں کیں لیکن حسن نہیں بچ پائے۔ ساجد نے کہا جس مقام پر یہ حادثہ پیش آیا وہاں سے کسی کو زندہ یا مردہ نیچےلانا بھی آسان نہیں۔ بوٹل نیک کے نیچے کلائمبرز کی طویل قطارتھی جبکہ موسم بھی اچھا نہیں تھا۔
ساجد سدپارہ نے حالیہ کلائمبنگ سیزن کے دوران نیپال میں دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ اور اموات کے تناسب سے خطرناک ترین تصور کی جانے والی چوٹی اناپورنا بغیر کسی پورٹر کی مدد اور بغیر اضافی آکسیجن کے سر کیں، جس کے بعد انہوں نے یہی کارنامہ پاکستان میں براڈ پیک اور نانگا پربت پر بھی انجام دیا۔ وہ اس سے پہلے نیپال میں مناسلو اور پاکستان میں گشربرم ون اور ٹو سمیت پہاڑوں کا بادشاہ کہلانے والے، کےٹو،کو بھی سر کر چکے ہیں۔
'پہاڑوں پر کسی کی مدد نا کرنے پر کسی کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا'
ناروے سے تعلق رکھنے والی کرسٹین ہاریلا حالیہ کلائیمبنگ سیزن میں آٹھ ہزار فٹ سے بلند دنیا کی تمام چوٹیاں کم ترین عرصے میں سر کرنے والی پہلی کوہ پیما بنی ہیں۔ انہوں نے تین ماہ اور ایک روز میں آٹھ ہزار سے بلند دنیا کی تمام چودہ چوٹیاں سر کرکے ایک نیا ورلڈ ریکارڈ قائم کیا۔ ان کے ساتھ اس ریکارڈ میں ان کے شیرپا گائیڈ تنجین بھی شامل تھے۔ ریکارڈ قائم ہوتے ہی جہاں کرسٹین ہاریلا کو بہت پذیرائی ملی وہیں سوشل میڈیا پر وائرل ہوتی ایک وڈیو نے ان کی کامیابی پر سوالیہ نشان اٹھا دیے۔
ستائیس جولائی کو نصف شب کے بعد جب کرسٹین اپنی ٹیم کے ساتھ ریکارڈ قائم کرنے کے لئے اپنی آخری چوٹی کےٹو سر کر رہی تھیں ان کی اگلی ٹیم میں پاکستانی پورٹر محمد حسن، جو کہ پہاڑ پر رسی فکس کرنے والی ٹیم کا حصہ تھے، کسی نا معلوم وجہ سے گر گئے اور بہت دیر سر کے بل لٹکے رہے۔ کرسٹین پر کئی کلائمبرز کی جانب سے یہ الزام عائد کیا گیا کہ وہ حسن کو بچانے کے بجائے اپنے ریکارڈ کی فکر میں آگے روانہ ہوگئیں۔ وائرل وڈیو میں کئی کوہ پیماؤں کو حسن کے جسم کو پھلانگتے ہوئے چوٹی کی جانب بڑھتے بھی دیکھا جاسکتا ہے۔
سال دو ہزار اکیس کے ونٹر سیزن میں اپنے والد محمد علی سدپارہ کو کےٹو کی مہم جوئی کے دوران کھونے والےساجد سد پارہ کہتے ہیں کہ پہاڑوں پر کسی کی مدد نا کرنے پر کسی کو مورد الزام بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
ان کا کہنا ہے کہ یہاں آنے والے ہر کلائمبر کا ایک مقصد ہوتا ہے، وہ اتنی دور تک بڑی محنت اور رقم خرچ کرکے پہنچے ہوتے ہیں۔ کسی کی مدد کرنا نہ کرنا ان کا ذاتی اور اخلاقی فیصلہ ہوتا ہے انہیں ایسا نہ کرنے پر ذمہ دار نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔
سوشل میڈیا کے دور میں کوہ پیمائی باقاعدہ صنعت کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے
آٹھ ہزار فٹ سے بلند دنیا کی پانچ چوٹیوں کا گھر پاکستان کا گلگت بلتستان ریجن حالیہ موسم گرما کے کلائمبنگ سیزن میں بھی دنیا بھر کے کوہ پیماؤں کی توجہ کا مرکز بنا رہا۔ ان پہاڑوں پر اس سیزن میں کئی نئے ریکارڈز بنے۔
سوشل میڈیا کے دور میں کوہ پیمائی باقاعدہ صنعت کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے۔
جہاں کوہ پیمائی کے کام سے منسلک کمپنیز اپنے کلائنٹس کو ایک سے بڑھ کر ایک سہولتیں اور آسانیاں فراہم کرنے کی دوڑ میں ہیں وہیں کوہ پیما بھی نت نئے ریکارڈز کی تگ و دو میں نظر آتے ہیں۔ کوئی کلائمبر اپنے ملک سے کسی چوٹی پر پہنچنے والی پہلی یا پہلا کلائمبر قرار پایا تو کسی نے اس سیزن آٹھ ہزار فٹ سے بلند تمام چوٹیاں سر کرنے کا ریکارڈ قائم کیا۔
کیا پاکستانی پورٹرز کی تربیت اور جان کی انشورنس کا نظام اطمینان بخش ہے؟
پہاڑوں پر رہنے والے لو اور ہائی آلٹیٹیوڈ پورٹرز کے لئے بھی عام طور پر موسم گرما ہی کمائی کا سیزن ہوتا ہے۔ کم اجرت پر دوسروں کا سامان ڈھونے والے اکثر پورٹرز بغیر کسی تکنیکی ٹریننگ اور ٹریکنگ گئیر کے ہی اپنی جان خطرے میں ڈالے ہوئے ہوتے ہیں۔
اس سوال پر کہ اتنے خطرات کے ساتھ ان کی جان کی انشورنس کیا مناسب ہوتی ہے؟ ساجد نے بتایا کہ وہ خود اپنے والد کو اسی پہاڑ پر کھو چکے ہیں اور وہ جانتے ہیں کہ پورٹرز کی انشورنس کے مسائل موجود ہیں۔ ان کے بقول پورٹر کے خاندان کو کوئی دو لاکھ روپے کے قریب رقم ملتی ہے جو کوئی معنی نہیں رکھتی۔ کسی گھرانے کا کمانے والا غائب ہوجاتا ہے تو پورے گھر کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ نیپال میں پورٹر انشورنس کا نظام بہت بہتر ہے۔
حادثات کا شکار ہونے والے پورٹرز اور کلائمبرز کے ریسکیو پر بات کرتے ہوئے ساجد کا کہنا تھا کہ ویسے تو بیس کیمپ میں ریسکیو ٹیمز موجود ہوتی ہیں لیکن کبھی اونچائی کی وجہ سے، کبھی راستے میں ٹریفک کی وجہ سے اور کبھی موسمی حالات کی وجہ سے بروقت امداد نہیں پہنچ پاتی۔ انہوں نےنیپال کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ وہاں انہوں نے کئی بار دیکھا کہ سات ہزار فٹ سے اونچی جگہوں سے بھی ہیلی کاپٹر آپریشن کے ذریعے پندرہ، بیس سے تیس منٹ کے دوران لوگوں کو ریسکیو کیا گیا۔
"اگر پاکستان میں بھی پرائیوٹ ہیلی سروس، سیزن کے دوران موجود ہو جو کہ سستی بھی ہو تو ریسکیو کرنا بہت آسان ہوجاتا ہے کیونکہ اس سے پہنچ آسان ہوجاتی ہے"۔ ساجد کے مطابق نیپال میں ہیلی پائلٹس خود کوہ پیما بھی ہوتے ہیں اس لئے انہیں پہاڑوں کا بھی بخوبی علم ہوتا ہے اور موسم کی خرابی کا بھی۔
ساجد سدپارہ نے پورٹرز کی تربیت اور ٹریننگ کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اس پر کوئی توجہ نہیں دی جارہی۔ ان کا کہنا ہے کہ یہ کام ایلپائن کلب آف پاکستان کا ہے کہ وہ بین الاقوامی کلائمبنگ فیڈیریشنز کے ساتھ باہمی تعاون سے پورٹرز کے لئے تربیت ممکن بنائے۔ ساجد کے بقول نیپال کے پورٹرز اور گائیڈز دنیا کے ایڈوانسڈ ممالک سے ٹریننگ حاصل کرتے ہیں اور ایسا کرنے کے لئے کسی خاص تگ و دو کی ضرورت بھی نہیں۔ ساجد کا کہنا ہے کہ بین الاقوامی ادارے خود چاہتے ہیں کہ وہ تربیت کریں مگر اس کے لئے رابطے اور نظام بنانا ہوگا۔
ساجد کا کہنا ہے کہ اگر پاکستان کے لوگ باہر سے تربیت لیکر اپنے ملک میں ماؤنٹین گائیڈز ایسوسی ایشن بنائیں تو وہ اپنے لئے اور پورٹرز کے لئے بہتر معاوضے، انشورنس اور دیگر مسائل پر قابو پانے کے لئے معاملات طے کرنے پر با اختیار ہونگے۔
سدپارہ ہوں، کوہ پیمائی میراث بھی ہے اور ذمہ داری بھی، ساجد سدپارہ
ساجد سدپارہ کے حوصلے گزرتے وقت کے ساتھ والد کے خواب کو پورا کرنے کے لئے مزید بلند ہوئے ہیں۔ ان کے مطابق گو کہ ان کی والدہ منع کرتی ہیں مگر وہ والدہ کو سمجھاتے ہیں کہ موسم گرما میں کوہ پیمائی زیادہ خطرناک نہیں ہوتی۔
ساجد جن کا تعلق بلتستان کے گاؤں سدپارہ سے ہے، فخریہ کہتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ سدپارہ نام جڑا ہے۔
" سدپارہ خاندان کوہ پیمائی کی دنیا میں ایک نام رکھتا ہے، اسی کام نے انہیں پہچان اور عزت دی ہے۔ پہاڑوں پر مہم میراث بھی ہے اور ذمہ داری بھی۔ کم عمر ہوں لیکن پہاڑوں سے اچھی طرح واقف ہوں، مستقبل میں بھی کوہ پیمائی جاری رکھوں گا خاص طور پر اپنے والد کے لئے"۔
کوہ پیما پہاڑوں پر آلودگی کم کرنے کے لئےکیا کر سکتے ہیں؟
ساجد سدپارہ نے اس سال کے آغاز میں اپنے والد کے نام پر بنائے گئے فلاحی ادارے علی سدپارہ فاؤنڈیشن کے تحت کےٹو کی صفائی مہم کا بھی اعلان کیا تھا۔ یہ صفائی مہم علی سدپارہ اور ساجد سدپارہ کے دوست اور نیپالی ایکسپیڈیشن کمپنی سیون سمٹ ٹریکس کی معاونت سے انجام دی گئی۔
پہاڑوں پر مہم جوئی کے لئے کلائمبرز اور سیاحوں کے پاس ہر قسم کا سامان ہوتا ہے جن میں کھانے پینے کی اشیا سے لیکر رسیاں، ٹینٹس اور آکسیجن سلینڈرز وغیرہ شامل ہوتے ہیں جو واپسی پر اکثر پہاڑوں پر ہی چھوڑ دیئے جاتے ہیں۔
ساجد سدپارہ کے مطابق اس سامان کوپیچھے چھوڑنے پر کسی کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا۔ ان کے مطابق اتنی اونچائی پر کلائمبرکی جسمانی کنڈیشن اور موسمی صورتحال کچھ ایسی ہوتی ہیں کہ ان کی ترجیح ان کی بحفاظت واپسی ہوتی ہے نا کہ سامان اور کچرا سمیٹ کر واپس لانا۔ ان کا کہنا ہے کہ مستقبل میں دیگر بلند چوٹیوں کی صفائی کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ "اس سال کےٹو پر برف بہت پڑی تو بہت سا کچرا برف کے نیچے دبا ہوا تھا لیکن پتھریلے علاقوں میں جتنی رسیاں نظر آئیں، وہ ہم نے اٹھائیں۔ تقریبا" دو سو کلو کے قریب ہم نے کچرا اکٹھا کیا۔ جتنا اس سال ہو سکا میں نے کیا اور اگلے سال بھی کروں گا"۔
فورم