آٹھ جون کی شام کراچی شہر اس وقت دہشت اور خوف سے لرز اٹھا جب ملک کے ہر ٹی وی چینل پر ایک نہتا نوجوان سرفراز رینجرز اہلکاروں سے معافی مانگتا دکھائی دیا مگر اہلکاروں نے اس کی کوئی بات نہیں سنی۔ اسی دوران اسے گھیرے میں لے لیا گیا اور ایک اہلکار کی فائرنگ سے وہ شدید زخمی ہو گیا۔ فوٹیج میں زخمی نوجوان مدد کے لئے چیختا ہوا دکھائی دیتا ہے ۔ پھر چند منٹ بعد یہ خون میں لت پت اس جہان فانی سے کوچ کرجاتا ہے ۔
یہ سب مناظر بار بار دکھائے جاتے رہے جنہیں دیکھ کر ہر دل دکھی ہوجاتا تھا۔ رینجرز کا دعویٰ تھا کہ27 سالہ ملزم سرفراز شاہ ڈکیتی کی غرض سے شہر کے ساحلی علاقے کلفٹن کے بے نظیر بھٹو پارک میں آیا ہوا تھا۔ افسر نامی شخص کی مدعیت میں مرحوم کے خلاف متعلقہ تھانے میں ایف آئی آر بھی درج کر لی گئی لیکن دوسری جانب فوٹیج کے مناظر کچھ اور ہی داستان بیان کر رہے تھے۔ اس فوٹیج کو دیکھ کرہی سول سوسائٹی ، مرحوم کے ورثاء اور صحافیوں سمیت بڑی تعداد میں لوگ لاش کے ہمراہ وزیر اعلیٰ ہاؤس کے سامنے جمع ہو گئے اور شدید احتجاج کیا۔ وزیر اعلیٰ سندھ کی جانب سے یقین دہانی کے بعد رات گئے احتجاج ختم ہوا ۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک کی جانب سے انکشاف کیا گیا کہ نوجوان پارک میں پستول تان کر دو خواتین کو ہراساں کر کے انہیں لوٹنا چاہتا تھا جس پر لوگوں نے پکڑ کر اسے چوکیدار کے حوالے کیا اور چوکیدار نے اسے رینجرز کے حوالے کردیا ۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے فوری طور پرپانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دے دیا جس کے سربراہ وہ خود تھے ۔ادھر قومی اسمبلی میں بھی اراکین نے واقعہ پر شدید احتجاج کیا ۔
دس جون کو سپریم کورٹ نے رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل اور سندھ پولیس کے انسپکٹر جنرل کو تین روز میں عہدے سے ہٹانے اور ٹرائل کورٹ کو 30 دنوں میں مقدمہ کی سماعت مکمل کرنے کا حکم دیا ۔
گیارہ جون کو سرفراز شاہ قتل کے بعد عوام کے غصے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے سندھ میں تعینات رینجرز کو انٹرنل سیکورٹی الاؤنس کی ادائیگی بند کر دی گئی ۔ واقعہ میں ملوث رینجرز اہلکاروں کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا ۔
بارہ جون کو سرفراز شاہ قتل کے مقدمے میں انسداد دہشت گردی کی دفعہ سیون اے ٹی اے بھی شامل کر دی گئی ۔ مقدمے میں چار گواہوں کے بیانات بھی قلمبند کیے گئے ۔
چودہ جون کو سپریم کورٹ کے حکم پر سندھ رینجرز کے ڈائریکٹر جنرل چوہدری اعجاز اور سندھ پولیس کے آئی جی فیاض لغاری کو ان کے عہدوں سے ہٹا دیا گیا جس کاباقاعدہ نوٹیفکیشن بھی جاری کیا گیا ۔
پندرہ جون کو مقامی عدالت واقعہ کی فوٹیج بنانے والے کیمرہ مین عبدالسلام سومرو اور لیاقت علی نامی شہری نے رینجرز اہلکاروں کی بطور ملزم شناخت کر لی ۔ گواہوں نے تصدیق کی کہ پارک کا گارڈ افسر خان مقتول نوجوان سرفراز شاہ کو پکڑ کر لایا ۔ اس وقت چھ اہلکار وہاں موجود تھے ۔ دوسری جانب پولیس نے ریمانڈ ختم ہونے کے بعد ملزمان کو انسداد دہشت گردی کی عدالتوں کے انتظامی جج جسٹس مقبول باقر کے روبرو پیش کیا جہاں پولیس کی درخواست پر ملزمان کو سترہ جون تک پولیس کے حوالے کر دیا گیا ۔
اکیس جون کو سندھ ہائی کورٹ کے حکم پر سرفراز شاہ قتل کیس کا چالان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں منتقل کر دیا گیا، عدالت نے رینجرز اہلکاروں کیخلاف پروڈکشن آرڈر جاری کردیئے ۔سرفراز شاہ قتل کیس میں گرفتار رینجرز اہلکار سپاہی محمد افضل خان، سپاہی شاہد ظفر، سب انسپکٹر بہاالرحمن، لانس نائیک لیاقت علی، سپاہی محمد صادق، ڈرائیور منٹھار علی اور سرفراز شاہ پر جھوٹا مقدمہ درج کروانے والے افسرخان کا مقدمہ انسداد دہشت گردی کی عدالت میں چلایا جائے گا۔
انتیس جون کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت نے واقعہ میں ملوث سات ملزمان پر فرد جرم عائد کر دی تاہم ملزمان نے صحت جرم سے انکار کر دیا ، ملزم شاہد ظفر کے وکیل شوکت حیات نے موقف اختیار کیا کہ ملزمان دہشت گرد نہیں اور ان سے جرم سرزد نہیں ہوا ۔
تیس جون کو رینجرز کے وکلانے ملزمان انسداد دہشت گردی کی عدالت میں مقدمہ چلانے کو چیلنج کر دیا ،درخواست میں موقف اختیار کیا گیا کہ مقدمہ قائم ہونے سے رینجرز کے نوجوانوں میں بددلی پھیل رہی ہے ، مقدمہ اے ٹی سی سے سیشن عدالت منتقل کیا جائے ۔
چار جولائی کو انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں مدعی مقدمہ سالک شاہ اور سب انسپکٹر ریاض کے بیانات قلمبند کیے گئے ۔ گواہان نے ملزمان کی شناخت بھی کی ۔
ستائس جولائی کو تفتیشی افسر ڈی آئی جی سلطان خواجہ نے اپنابیان ریکارڈ کروایا جس کے بعد استغاثہ نے اپنی فائل بند کر دی ، ادھر کراچی میں وکلاء کے قتل کے خلاف وکلاء نے ہڑتالیں شروع کر دیں۔
نواگست کو وکلاء کے حتمی طرفین وکلاء کے حتمی دلائل مکمل ہو گئے جس کے بعد فیصلہ بارہ اگست تک محفوظ کر لیا گیا ۔ وکلاء صفائی نے حتمی دلائل میں کہا کہ رینجرز اہلکار سرکاری فرائض انجام دے رہے تھے ، انہوں نے ایسا کوئی فعل نہیں کیا جو دہشت گردی کے زمرے میں آتا ہو ، سرفراز شاہ ڈکیتی کے دوران پکڑا گیا تھا جبکہ وکیل سرکار نے موقف اختیار کیا کہ ملزم پر بغیرکسی شک و شبہے کے ثابت ہوا کہ انہوں نے ایک نہتے نوجوان کو بے دردی سے قتل کرکے دہشت گردی کا فعل سرانجام دیا ہے، اس بے رحمانہ قتل سے معاشرے میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔
بارہ اگست کو 45 روزہ سماعت کے بعد انسداد دہشت گردی کی عدالت کے جج بشیر احمد کھوسو نے سرفراز شاہ قتل کیس کے فیصلے میں رینجرز اہلکار شاہد ظفر کو سزائے موت اور دو لاکھ جبکہ باقی ملزمان رینجرز اہلکاروں محمد افضل ،محمد لیاقت ، منٹھار علی ، بہاؤ الدین ، محمد طارق اور پارک کے چوکیدار افسر خان کو عمر قید اور ایک ، ایک لاکھ روپے کی سزا سنا دی ۔
انسداد دہشت گردی کے اس فیصلے کے خلاف سات روز کے اندر اندر اپیل دائر کی جا سکتی ہے۔ وکلاء صفائی کا کہنا ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف اعلیٰ عدلیہ سے رجوع کریں گے ۔
سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت کو ایک ماہ میں مقدمے کا فیصلہ کرنا تھا لیکن وکلا کی ہڑتال اور وکلائے صفائی کی عدم حاضری کی وجہ سے سماعت بر وقت مکمل نہ ہو سکی ، مقدمے میں20 گواہوں کے بیانات ریکارڈ قلمبند کیے گئے