رسائی کے لنکس

سعودی وزیر خارجہ کی صدر اوباما سے ملاقات


سعودی وزیر خارجہ کی وائٹ ہاؤس آمد
سعودی وزیر خارجہ کی وائٹ ہاؤس آمد

سعودی عرب اس بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر چکا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکے گا۔ لیکن اس سب کے باوجود نہ تو اس نے کھل کر اس معاہدے پر تنقید کی ہے اور نہ ہی توثیق۔

ایران کے جوہری معاہدے سے متعلق تذبذب کے شکار سعودی عرب نے اپنے وزیر خارجہ عادل الجبیر کو وائٹ ہاؤس بھیجا جہاں انھوں نے صدر براک اوباما سے ملاقات کی۔

وائٹ ہاؤس کے ترجمان جوش ارنسٹ نے صحافیوں کو بتایا کہ ملاقات میں رواں ہفتے ایران کے جوہری معاہدے اور اس کے تناظر میں سکیورٹی تعاون کو بڑھانے پر تبادلہ خیال کیا گیا۔

"بات چیت میں قریبی اور دیرینہ شراکت داری کو مزید بڑھانے کے طریقوں پر تبادلہ خیال ہوا۔"

ترجمان نے اس بارے میں تفصیلات تو فراہم نہیں کیں کہ کس طرح امریکہ فوجی اعانت میں اضافہ کرے گا لیکن ان کا کہنا تھا کہ مئی میں کیمپ ڈیوڈ میں خلیج تعاون کونسل اور سعودی عرب کے اعلیٰ عہدیداروں سے ہونے والی صدر اوباما کی مشاورت کی بنیاد پر امور آگے بڑھیں گے۔

کیمپ ڈیوڈ میں ہونے والی بات چیت میں صدر اوباما نے کہا تھا کہ امریکہ خلیج تعاون کونسل کے ساتھ مل کر کام کرنے کے لیے تیار ہے اور کسی بھی رکن ملک کی جغرافیائی سالمیت کے خلاف درپیش خطرے کا مقابلہ کیا جائے گا۔

ایران کے لیے رویے میں نرمی پر سعودی رہنما امریکہ پر تنقید کر چکے ہیں کیونکہ انھیں شبہ ہے کہ پابندیوں کو نرم کرنے سے تہران خطے بشمول یمن کو غیر مستحکم کرنے کے لیے "مالی اعانت" میں اضافہ کرے گا۔

سعودی عرب اس بارے میں بھی شکوک و شبہات کا اظہار کر چکا ہے کہ یہ معاہدہ ایران کو جوہری بم بنانے سے روکے گا۔

لیکن اس سب کے باوجود نہ تو سعودی عرب نے کھل کر اس معاہدے پر تنقید کی ہے اور نہ ہی توثیق۔

صدر اوباما اور سعودی وزیر خارجہ کی ملاقات کے بعد جاری ہونے والے ایک بیان میں وائٹ ہاؤس کے حکام کا کہنا تھا کہ دونوں نے معاہدے کا "خیرمقدم" کیا جو کہ جب "مکمل طور پر نافذ ہو جائے گا تو جوہری ہتھیاروں کے حصول کے لیے ایران کے تمام راستوں کو بند کر دے گا۔"

XS
SM
MD
LG