سعودی عرب میں حکام نے ان 11 شہزادوں کو حراست میں لے لیا ہے جو حکومت کی طرف سے پانی اور بجلی کے بلوں میں دی جانے والی رعایت ختم کیے جانے پر ریاض میں ایک شاہی محل میں احتجاج کرنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔
دنیا میں تیل برآمد کرنے والے اس بڑے ملک نے اصلاحات کرتے ہوئے توانائی کی فراہمی میں دیے جانے والے زراعانت کو روک دیا تھا اور شاہی خاندان کے ارکان کے لیے بعض مالی فوائد کو کم کرتے ہوئے نئے ٹیکس بھی متعارف کروائے تھے۔
ان اقدام کی وجہ تیل کی قیمتوں میں کمی کے باعث ہونے والے بجٹ خسارے کو کم کرنا تھا۔
یہ شہزادے جمعرات کو قصر الحکم محل میں جمع ہوئے اور پانی و بجلی کے بلوں کی سرکاری خزانے سے ادائیگی روکنے جانے کے حکم کو واپس لینے کے علاوہ 2016ء میں اپنے ایک رشتے دار شہزادہ ترکی بن سعود الکبیر کو دی گئی سزائے موت پر مالی تلافی کا مطالبہ کرتے رہے۔
ہفتہ کو استغاثہ نے ان شہزادوں کی گرفتاری کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ "یہ اطلاع دیے جانے کے باوجود کہ یہ مطالبات غیر قانونی ہیں، 11 شہزادوں نے یہ جگہ خالی کرنے سے انکار کیا اور نقض امن میں خلل ڈالا۔ اس پر سکیورٹی سروسز کے اہلکار وہاں پہنچے اور شہزادوں کو گرفتار کر لیا۔"
مزید برآں بیان کے مطابق ان شہزادوں کو گرفتاری کے بعد ان پر مختلف الزامات کے تحت مقدمہ درج کیا گیا اور انھیں ال الحیر جیل میں منتقل کر دیا گیا۔
ان شہزادوں کے نام تو ظاہر نہیں کیے گئے لیکن نیوز ویب سائٹ 'سبق' نے قب ازیں احتجاج کرنے والے شہزادوں کے گروپ کے سربراہ کو 'ایس اے ایس' کے نام سے ظاہر کیا تھا۔
ولی عہد شہزادہ محمد سلمان سعودی فرمانروا کے سب سے چہیتے بیٹے ہیں اور امور سلطنت پر اپنی گرفت کو مضبوط کرتے ہوئے ولی عہد نے کئی ایک جارحانہ پالیسیاں بھی مرتب کیں جس سے شاہی خاندان میں بے چینی کی لہر دوڑ گئی۔
گزشتہ نومبر میں کئی اہم وزرا اور شہزداوں کو بدعنوانی کی تحقیقات کے لیے گرفتار بھی کیا گیا تھا۔