سعودی عرب نے یمن میں غلط اہداف کو نشانہ بنانے کا اعتراف کرتے ہوئے کہا ہے کہ وہ اہداف کے معاملے میں عرب ملکوں کے اتحاد کی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔
سعودی عرب پر بین الاقوامی برادری بشمول اس کے اپنے اتحادیوں کو دباؤ بڑھتا جا رہا ہے کہ وہ یمن کی جنگ میں عام شہریوں کی ہلاکت روکنے کے لیے سنجیدہ اقدامات کرے۔
سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے 2016ء میں یمن کے بڑے حصے پر قابض شیعہ حوثی باغیوں کے خلاف فوجی کارروائی کا آغاز کیا تھا جس کا زیادہ تر انحصار حوثیوں کے زیرِ قبضہ علاقوں پر فضائی حملوں پر ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں اور بین الاقوامی اداروں کا کہنا ہے کہ سعودی عرب کی قیادت میں قائم عرب ملکوں کے فوجی اتحاد کی جانب سے یمن میں بمباری اور میزائل حملوں میں اب تک بچوں اور خواتین سمیت سیکڑوں عام شہری مارے جاچکے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق پیر کو جنیوا میں اقوامِ متحدہ کی ایک خصوصی کمیٹی برائے حقوقِ اطفال کو بریفنگ دیتے ہوئے سعودی وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار اوسیکر العتوبی نے کہا کہ ان کا ملک بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کے عزم پر قائم ہے۔
سعودی عہدیدار نے کمیٹی کو بتایا کہ عرب اتحاد نے یمن میں اسکولوں اور اسپتالوں سمیت 64 ہزار ایسی تنصیبات کی نشان دہی کی ہے جن پر حملہ نہیں کیا جاسکتا۔
العتوبی نے اعتراف کیا کہ عرب اتحاد کی اپنی تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اتحاد کی کارروائیوں میں نادانستہ طور پر غلطیاں ہوئی ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ اتحاد کی ٹاسک فورس نے ان غلطیوں میں ملوث افراد کے خلاف کارروائی اور متاثرہ افراد کے نقصان کے ازالے کی سفارش کی ہے۔
اقوامِ متحدہ کی یہ کمیٹی 18 غیر جانب دار ماہرین پر مشتمل ہے جو اس بات کاجائزہ لے رہی ہے کہ یمن کی جنگ کے دوران سعودی اتحاد نے مسلح تصادم میں گھرے بچوں سے متعلق بین الاقوامی معاہدے پر کتنا عمل درآمد کیا۔
پیر کو کمیٹی نے اپنے اجلاس کے دوران بارہا عرب اتحاد کے حملوں میں یمنی بچوں کی ہلاکت کا معاملہ اٹھایا۔
کمیٹی کی نائب سربراہ کلیئرنس نیلسن کا کہنا تھا کہ بچوں اور عام شہریوں کی ہلاکت کے یہ واقعات گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہیں لیکن اس کے باوجود ایسی کوئی معلومات دستیاب نہیں کہ ان میں ملوث کتنے افراد کے خلاف کارروائی کی گئی یا انہیں روکنے کے لیے کیا اقدامات کیے گئے۔
اجلاس کے دوران کمیٹی کی سربراہ رینیٹ ونٹر نے سعودی حکام کے سامنے اسپتالوں اور اسکولوں پر بار بار کیے جانے والوں حملوں کا معاملہ بھی اٹھایا۔
انہوں نے سوال کیا کہ سعودی حکام کہتے ہیں کہ یہ واقعات اتفاقی ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ یمن کے لوگ ایسے کتنے اتفاق برداشت کرسکتے ہیں؟
رینیٹ وِنٹر نے بطور خاص یمن کے صوبے سعدہ میں اگست میں ایک اسکول بس پر کیے جانے والےفضائی حملے کا بھی حوالہ دیا جس میں بچوں سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے تھے۔
سعودی اتحاد نے یکم ستمبر کو اس حملے کی ذمہ داری قبول کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس "غلطی" میں ملوث افراد سے باز پرس کی جائے گی۔
اجلاس کے دوران سعودی وفد کے ارکان نے اپنے اس الزام کو دہرایا کہ حوثی باغی اسکولوں اور اسپتالوں کو اپنے ٹھکانوں کے طور پر استعمال کرکے عام شہریوں اور بچوں کی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
اقوامِ متحدہ کے مطابق یمن میں جاری خانہ جنگی کے دوران اب تک 10 ہزار سے زائد افراد ہلاک ہوچکے ہیں جب کہ ملک میں بڑے پیمانے پر تباہی ہوئی ہے۔
عالمی برادری کی کوششوں کے باوجود تاحال اس جنگ کا اختتام ہوتا نظر نہیں آرہا۔