امریکی محکمہ خارجہ نے سعودی عرب پر زور دیا ہے کہ اعلیٰ عہدےداروں اور شاہی خاندان کے ارکان کے خلاف مقدمات منصفانہ اور شفاف طریقے سے چلائے۔ یہ رد عمل ہفتے کے روز سعودی شاہ سلمان اور سعودی عرب کے ولی عہد شہزادے کی جانب سے اعلیٰ ترین سعودی عہدے داروں کے خلا ف پکڑ دھکڑ کی ایک بھر پور کارروائی کے بعد سامنے آیا ہے۔
سعودی عرب میں، شاہی خاندان کے دوسرے افراد اور حکومت کے وزرا اور سرمایہ کاروں کے ساتھ، دنیا کے ایک امیر ترین شخص سعودی شہزادے الولید بن طلال کی اچانک گرفتاریوں سے ہونے والی ڈرامائی تبدیلوں نے پورے مشرق وسطیٰ میں ہلچل پیدا کر دی ہے۔ یہ تمام گرفتار افراد ریاض رٹز کارلٹن ہوٹل میں زیر حراست ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اس پکڑ دھکڑ کے لیے ٹوئیٹر پر اپنی بھر پور حمایت کا اظہار کیا۔
امریکی محکمہ خارجہ کی ترجمان حیدر نورٹ نے اس رد عمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ہم سعودی عہدے داروں کی اس بارے میں مسلسل حوصلہ افزائی کرتے رہیں گے کہ وہ ان لوگوں کے خلاف قانونی کارروائی کریں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ بدعنوان عہدے داررہے ہیں۔ ہمیں توقع ہے کہ وہ یہ کارروائی منصفانہ اور شفاف طریقے سے کریں گے۔ ہم سعودی حکومت پر ایسا کرنے پر زور دیں گے۔ میرے پاس اس بارے میں آپ کے لیے بہت زیادہ معلومات نہیں ہوں گی۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا امریکی محکمہ خارجہ صدر ٹرمپ کی توثیق سے متفق ہے تو انہوں نے یہ سوال وہائٹ ہاؤس سے پوچھنے کے لیے کہا۔
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ سعودی قیادت بد عنوانی کے خاتمے اور اپنے روایتی حریف ایران سے نمٹنے سمیت متعدد چیلنجوں سے جرات مندانہ طریقے سے نبرد آزما ہونے کوشش کر رہی ہے۔
بروکنگ انسٹی ٹیوٹ کے حیڈی امر کہتے ہیں کہ اس لیے یہ گرفتاریاں کم از کم تکنیکی اعتبار سے بد عنوانی کے خلاف پکڑ دھکڑ کے ضمرے میں آتی ہیں۔ جس چیز نے چونکایا ہے، اور جس کا ایک ملا جلا اثر ہو سکتا ہے، وہ یہ ہے کہ یہ گرفتاریاں انتہائی ممتاز شخصيات کی ہوئی ہیں۔ ان گرفتار افراد میں، ایک ٹریلین ڈالرز کی دولت کی حامل ایک شخصیت شامل ہے جو امریکہ میں بہت معروف ہے اور دوسرے بہت سے ممتاز افراد شامل ہیں ۔ آپ تصور کریں یہ ایسا ہی ہے کہ آپ امریکہ میں ایک دن صبح اٹھیں اور آپ کو معلوم ہو کہ بل گیٹس اور وارن بفٹ کو گرفتار کر لیا گیا ہے، کیا اس سے آپ کی معیشت پر اعتماد قائم رہے گا۔
جب محکمہ خارجہ کی ترجمان نوریٹ سے پوچھا گیا کہ آیا انہیں یہ تشویش ہے کہ بڑے پیمانے پر یہ گرفتاریاں عدم استحكام پیدا کر سکتی ہیں تو انہوں نے اس کی ذمہ داری علاقے کے اہم کرداروں پر ڈال دی۔
انہوں نے کہا کہ میرا خیال ہے کہ ہم ٹھیک ٹھیک جانتے ہیں کہ خطے میں عدم استحكام کی زیادہ تر ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے اور ہم ایران کی سرگرمیاں دیکھ چکے ہیں ۔ہم یمن میں ایران کی سرگرمیاں دیکھ چکے ہیں ۔ ہم شام میں ایران کا ہاتھ دیکھ چکے ہیں ۔ ہم ایران کا ہاتھ دوسرے مقامات پر دیکھ چکے ہیں۔
اب جب کہ لبنانی وزیر اعظم سعد حریری اتوار کو مستعفی ہو رہے ہیں، سعودی عرب کے کچھ ماہرین کو خطے میں کسی تنازعے کے امکان کے بارے میں تشویش ہے جو یمن میں پہلے ہی پیدا ہو رہا ہے ۔ امر کہتے ہیں کہ انہیں توقع ہے امریکی وزیر خارجہ ٹلرسن اس مسئلے کو کم کر سکیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ میرا خیال ہے کہ وزیر خارجہ ٹلرسن ایسا کرنے کے لیے وہ علم اور صلاحیت بھی رکھتے ہیں۔ جو وہ ایکزون میں اپنے برسوں کے تجربے سے اپنے ساتھ لائے ہیں جہاں وہ خلیج کی ریاستوں کے درمیان مسابقت اور تنازعے سے پہلے ہی نمٹ رہے تھے۔ میرے لیے سوال یہ ہے کہ آیا صدر ٹرمپ اسے پسند کریں گے یا نہیں۔
امر کہتے ہیں کہ اگر ٹرمپ مشرق وسطیٰ میں اسی طرح کی نمایاں تبدیلیوں کے منصوبے رکھتے ہیں جیسا کہ انہوں نے امریکہ کی ملکی سیاست میں تبدیلی کے حوالے سے کیا ہے تو یہ ایک خطرناک کھیل ہو سکتا ہے۔