سعودی عرب میں بدعنوانی کے الزامات میں 11 شہزادوں، چار موجودہ اور درجنوں سابق وزرا کو گرفتار کر لیا گیا ہے جن میں کھرب پتی شہزادہ اور نیشنل گارڈز کے سربراہ شہزادہ ولید بن طلال بھی شامل ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اس اقدام سے ولی عہد شزادہ محمد بن سلمان کی گرفت مضبوط ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔
شاہی خاندان کے ارکان کی اس قدر بڑی تعداد میں گرفتاری شاہ سلمان کی طرف سے اینٹی کرپشن کمیٹی کی تشکیل کے فوراً بعد عمل میں آئی ہے۔ اس کمیٹی کے سربراہ شاہ سلمان کے 32 سالہ بیٹے اور ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ہیں جنہیں تین برس قبل ولی عہد مقرر کر دیا گیا تھا۔
اس کمیٹی کو وسیع اختیارات دئے گئے ہیں جن میں الزامات کی تحقیقات، گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا، ملزمان کے سفر پر پابندی عائد کرنا اور اُن کے اثاثے منجمد کرنا شامل ہیں۔ شاہی فرمان میں کہا گیا تھا کہ اگر سعودی عرب سے بدعنوانی کا خاتمہ نہ کیا گیا اور بدعنوان لوگوں کو بے نقاب نہ کیا گیا تو سعودی وطن کا وجود برقرار نہیں رہ سکے گا ۔
سعودی سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ کارروائی بدعنوانی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مقصد ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کے ممکنہ مخالفین کو راستے سے ہٹانا ہے ۔ شہزادہ محمد بن سلمان اصلاحات کے ایک وسیع تر اور متنازعہ منصوبے پر عمل پیرا ہیں۔ اُنہوں نے ستمبر میں خواتین کو گاڑی چلانے کی اجازت دینے کا اعلان کیا تھا اور وہ عوامی تفریح اور غیر ملکی سیاحوں کی سعودی عرب آمد کو فروغ دینے کیلئے اقدامات کر رہے ہیں۔
معاشی میدان میں اُنہوں نے بعض سرکاری شعبوں کے اخراجات کم کئے ہیں اور سرکاری کمپنیوں کی نجکاری کے عمل کا آغاز کیا ہے۔
سنگاپور کے راجا رتنم اسکول برائے بین الاقوامی تدریس کے فیلو جیمز ڈورسے کا کہنا ہے کہ حالیہ گرفتاریوں کا اقدام شاہی خاندان کی روایتی پالیسی کی نفی کرتا ہے جس میں کام کرنے کا پوشیدہ انداز سابقہ سوویت یونین کے دور میں کریملن کی پالیسیوں سے مماثلت رکھتا ہے۔ اُن کا کہنا ہے کہ اتحاد قائم کرنے کے بجائے شہزادہ محمد بن سلمان شاہی خاندان، فوج اور نیشنل گارڈ پر سخت کنٹرول حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں تاکہ وہ اپنی اصلاحات اور یمن میں جاری جنگ کے حوالے سے شاہی خاندان اور فوج میں پائی جانے والی مخالفت کو کچل سکیں۔
گلف بینک کے ایک اعلیٰ اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سعودی عرب میں کوئی اس بات پر یقین نہیں کرتا کہ ان گرفتاریوں کی وجہ بدعنوانی ہے۔ اُس کا کہنا تھا کہ اس کا مقصد طاقت کا ارتکاز اور اصلاحات کے عمل میں مناسب رفتار سے پیش رفت نہ ہونے کے حوالے سے مایوسی ہے۔
ان گرفتاریوں سے خطے کے ساتھ ساتھ دنیا بھر میں خطرے کی گھنٹیاں بجنے لگی ہیں۔ اس سلسلے میں اس بات کا بھی تذکرہ کیا جا رہا ہے کہ اس سال جون میں شہزادہ محمد بن نائف کو ولی عہد کے عہدے سے ہٹا کر شاہ سلمان کے فرزند محمد بن سلمان کو ولی عہد اور وزیر داخلہ مقرر کر دیا گیا تھا۔
شہزادہ محمد بن سلمان کو عام طور پر MBS کے مختصر حروف سے موسوم کیا جاتا ہے۔ اُنہوں نے شہزادہ مطب بن عبداللہ کو گرفتار کر کے سعودی عرب کے قبیلوں کے طاقت کے مرکز کو ختم کر دیا ہے۔
شہزادہ ولید بن طلال سٹی گروپ اور ٹویٹر جیسے بڑے اداروں میں سرمایہ کاری کے اعتبار سے بھی شہرت رکھتے ہیں۔ اُن کے علاوہ سعودی عرب کی بڑی تعمیراتی کمپنی سعودی بن لادن کنسٹرکشن گروپ کے چیئرمین بقر بن لادن اور ایم بی سی ٹیلی ویژن کے مالک الولید الابراہیم بھی گرفتار ہونے والی شخصیات میں شامل ہیں۔
بتایا جاتا ہے کہ گرفتار ہونے والے کچھ افراد کو ریاض کے رٹز کارلٹن ہوٹل میں زیر حراست رکھا گیا ہے۔