واشنگٹن —
سعودی عرب کی حکومت نے عرب دنیا کی سب سے منظم اور بڑی اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' کو "دہشت گرد تنظیم " قرار دے دیا ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے خبر دی ہے کہ سعودی وزارتِ داخلہ نے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی گروہوں 'النصرہ فرنٹ' اور 'اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ لیونٹ' کو بھی "دہشت گرد تنظیموں" کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
ان دونوں مسلح گروہوں پر عالمی شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' سے روابط کا الزام ہے۔ اخوان المسلمون اور ان دونوں گروہوں کو "دہشت گرد" قرار دینے کے بعد ان سے رابطے رکھنے والے سعودی شہریوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکے گی۔
شام میں سرگرم دونوں مسلح گروہوں کو "دہشت گرد" قرار دینے کا سعودی فیصلہ گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے ایک شاہی حکم نامے کا تسلسل ہے جس کے تحت سعودی حکومت نے بیرونِ ملک کسی مسلح کاروائی میں شرکت کرنے والے اپنے شہریوں کے لیے تین سے 20 سال تک قید کی سزاؤں کا اعلان کیا تھا۔
شام کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی بھرپور حمایت کے باوجود سعودی عرب کی حکومت اپنے شہریوں کی شام میں جاری لڑائی میں شرکت سے خائف ہے۔ سعودی حکمرانوں کو اندیشہ ہے کہ شام سے واپسی کے بعد یہ جنگجو سعودی مملکت اور حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
ماضی میں حکومت کے حامی سعودی علما بھی شام میں جاری خانہ جنگی میں سعودی شہریوں کی باغیوں کی جانب سے شرکت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعودی وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 1200 سعودی شہری شام پہنچ چکے ہیں جہاں وہ باغیوں کے شانہ بشانہ اسد حکومت کےخلاف برسرِ پیکار ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت عالمِ عرب کی منظم ترین اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' سے بھی خائف ہے جس کے نظریات کو عرب، خصوصاً خلیجی ممالک کے حکمران اپنے اقتدار کے لیے خطرہ گردانتے ہیں۔
'اخوان المسلمون' عرب ممالک میں جمہوری طرزِ حکومت کے قیام کی خواہش مند ہے جسے موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کا شکار عرب معاشروں کے عوام کی قابلِ ذکر تعداد کی حمایت حاصل ہے۔
عرب ممالک میں 2011ء میں شروع ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک کے بعد کئی ممالک بشمول سعودی عرب میں بھی 'اخوان المسلمون' کی پذیرائی اور مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے سعودی حکمران خاندان تشویش میں مبتلا ہے۔
سعودی عرب کے سابق اتحادی اور مصر پر کئی عشروں تک حکومت کرنے والے مطلق العنان صدر حسنی مبارک کی 2011ء میں برطرفی کے بعد عالمِ عرب کے اس گنجان ترین ملک میں ہونے والے تمام انتخابات میں 'اخوان المسلمون' نے کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔
تاہم اخوان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے سے قبل ہی مصر کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کی سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک نے بھرپور حمایت کی تھی۔
مصر ی فوج کی حمایتِ یافتہ حکومت نے بھی گزشتہ سال دسمبر میں بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے 'اخوان المسلمون' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔
لیکن 'اخوان المسلمون' کی قیادت پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ ان کی جماعت صرف پرامن اور جمہوری راستے سے ہی اقتدار کی تبدیلی کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔
سعودی عرب کے سرکاری ٹیلی ویژن نے خبر دی ہے کہ سعودی وزارتِ داخلہ نے شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغی گروہوں 'النصرہ فرنٹ' اور 'اسلامک اسٹیٹ ان عراق اینڈ لیونٹ' کو بھی "دہشت گرد تنظیموں" کی فہرست میں شامل کرلیا ہے۔
ان دونوں مسلح گروہوں پر عالمی شدت پسند تنظیم 'القاعدہ' سے روابط کا الزام ہے۔ اخوان المسلمون اور ان دونوں گروہوں کو "دہشت گرد" قرار دینے کے بعد ان سے رابطے رکھنے والے سعودی شہریوں کے خلاف قانونی کاروائی کی جاسکے گی۔
شام میں سرگرم دونوں مسلح گروہوں کو "دہشت گرد" قرار دینے کا سعودی فیصلہ گزشتہ ماہ جاری کیے جانے والے ایک شاہی حکم نامے کا تسلسل ہے جس کے تحت سعودی حکومت نے بیرونِ ملک کسی مسلح کاروائی میں شرکت کرنے والے اپنے شہریوں کے لیے تین سے 20 سال تک قید کی سزاؤں کا اعلان کیا تھا۔
شام کی حکومت کے خلاف لڑنے والے باغیوں کی بھرپور حمایت کے باوجود سعودی عرب کی حکومت اپنے شہریوں کی شام میں جاری لڑائی میں شرکت سے خائف ہے۔ سعودی حکمرانوں کو اندیشہ ہے کہ شام سے واپسی کے بعد یہ جنگجو سعودی مملکت اور حکومت کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔
ماضی میں حکومت کے حامی سعودی علما بھی شام میں جاری خانہ جنگی میں سعودی شہریوں کی باغیوں کی جانب سے شرکت کی مخالفت کرتے رہے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود سعودی وزارتِ داخلہ کے اعداد و شمار کے مطابق لگ بھگ 1200 سعودی شہری شام پہنچ چکے ہیں جہاں وہ باغیوں کے شانہ بشانہ اسد حکومت کےخلاف برسرِ پیکار ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت عالمِ عرب کی منظم ترین اسلام پسند جماعت 'اخوان المسلمون' سے بھی خائف ہے جس کے نظریات کو عرب، خصوصاً خلیجی ممالک کے حکمران اپنے اقتدار کے لیے خطرہ گردانتے ہیں۔
'اخوان المسلمون' عرب ممالک میں جمہوری طرزِ حکومت کے قیام کی خواہش مند ہے جسے موروثی بادشاہتوں اور فوجی آمریتوں کا شکار عرب معاشروں کے عوام کی قابلِ ذکر تعداد کی حمایت حاصل ہے۔
عرب ممالک میں 2011ء میں شروع ہونے والی عوامی احتجاجی تحریک کے بعد کئی ممالک بشمول سعودی عرب میں بھی 'اخوان المسلمون' کی پذیرائی اور مقبولیت میں اضافہ ہوا ہے جس سے سعودی حکمران خاندان تشویش میں مبتلا ہے۔
سعودی عرب کے سابق اتحادی اور مصر پر کئی عشروں تک حکومت کرنے والے مطلق العنان صدر حسنی مبارک کی 2011ء میں برطرفی کے بعد عالمِ عرب کے اس گنجان ترین ملک میں ہونے والے تمام انتخابات میں 'اخوان المسلمون' نے کامیابی حاصل کرکے اقتدار سنبھالا تھا۔
تاہم اخوان کی حکومت کا ایک سال مکمل ہونے سے قبل ہی مصر کی فوج نے حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا جس کی سعودی عرب اور اس کے اتحادی خلیجی ممالک نے بھرپور حمایت کی تھی۔
مصر ی فوج کی حمایتِ یافتہ حکومت نے بھی گزشتہ سال دسمبر میں بم دھماکوں اور پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کا الزام عائد کرتے ہوئے 'اخوان المسلمون' کو دہشت گرد تنظیم قرار دے دیا تھا۔
لیکن 'اخوان المسلمون' کی قیادت پرتشدد واقعات میں ملوث ہونے کے الزامات کی تردید کرتی ہے اور اس کا اصرار ہے کہ ان کی جماعت صرف پرامن اور جمہوری راستے سے ہی اقتدار کی تبدیلی کی جدوجہد پر یقین رکھتی ہے۔