رسائی کے لنکس

سعودی عرب کو سی پیک میں شامل ہونے کی دعوت


پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے ساتھ۔ فائل فوٹو
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان دورہ سعودی عرب کے دوران سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے ساتھ۔ فائل فوٹو

پاکستان کے وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چودھری نے کہا ہے کہ پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان نے سعودی عرب کے دورے کے دوران وہاں کی قیادت سے ہونے والی ملاقات میں سعودی عرب کو چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) کے منصوبوں میں بطور تیسرے شراکت دار شامل ہونے کی دعوت دی ہے۔

فواد چودھری نے کہا "سعودی عرب کے بادشاہ سلمان بن عبدالعزیز کی کی تجویز پر پاکستان اور سعودی کے درمیان ایک اعلیٰ سطح کی رابطہ کمیٹی قائم کی گئی ہے اور اس سلسلے میں ایک اعلیٰ سطح کا سعودی وفد اکتوبر کے پہلے ہفتے میں پاکستان پہنچے گا۔ " جس میں سعودی عرب کے وزیر خزانہ، وزیر توانائی اور تجارتی امور کے وزیر شامل ہوں گے۔ دورے کے دوران ان کے بقول سعودی عرب اور پاکستان کے درمیان ایک وسیع اقتصادی شراکت داری کی بنیاد رکھی جائے گی۔

واضح رہے کہ چین، پاک چین اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے تحت پاکستان میں توانائی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کے لیے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کر رہا ہے اور یہ منصوبے 'بیلٹ اور روڈ' کے عنوان سے جاری چین کے وسیع منصوبے کا اہم حصہ ہیں۔ تاہم ان منصوبوں میں اب تک سرمایہ کاری صرف چین کی طرف سے کی جارہی ہے اور بعض مبصرین کا کہنا ہے کہ ان منصوبوں میں سعودی عرب کو دعوت دینے میں یقینی طور پر چین کی رضامندی شامل ہوگی۔

ممتاز ماہر معاشیات اور عالی بینک کے سابق نائب صدر شاہد جاوید برکی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کو شامل کرنے کا بنیادی مقصد اقتصادی راہداری منصوبے کیلئے مزید سرمایہ کاری کا حصول ہے تاکہ صرف چین پر ہی اکتفا نہ کیا جائے۔ اُنہوں نے کہا کہ چین کے وزیر خارجہ نے جب اس ماہ کے شروع میں پاکستان کا دورہ کیا تھا تو اُس وقت اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دوسرے ممالک کو بھی سرمایہ کاری کیلئے دعوت دی جائے۔ اس موقع پر طے کیا گیا تھا کہ مشرق وسطیٰ کے ممالک کو سی پیک کے تحت قائم کئے جانے والے اکنامک زونز میں سرمایہ کاری کا موقع دیا جائے۔

شاہد جاوید برکی کا کہنا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم عمران خان کے متحدہ عرب امارات کے دورے کے دوران امارات کو بھی اقتصادی راہداری منصوبے میں شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور اگرچہ وہ اس میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں، تاہم وہاں صورت حال قدرے پیچیدہ ہے کیونکہ متحدہ عرب امارات گوادر کی بندرگاہ کو دبئی کی بندرگاہ کے ساتھ مقابلہ بازی کے تناظر میں دیکھتا ہے۔ شاہد جاوید برکی کا کہنا ہے کہ دبئی ایک قدرتی بندرگاہ نہیں جبکہ گوادر نہ صرف ایک قدرتی بندرگاہ ہے بلکہ وہاں بڑے جہاز بھی باآسانی لنگرانداز ہو سکتے ہیں۔

گوادر بندرگاہ کا ایک منظر۔ فائل فوٹو
گوادر بندرگاہ کا ایک منظر۔ فائل فوٹو

وہ کہتے ہیں کہ چین کے بیلٹ اینڈ روڈ اور اقتصادی راہداری کے منصوبوں کے خلاف امریکہ اور دیگر مغربی ممالک کی طرف سے بڑے پیمانے پر پراپیگنڈا کیا جاتا رہا ہے اور کچھ ممالک اس پروپیگنڈے کے زیر اثر مدافعتی پالیسی اپنانے پر بھی مجبور ہو گئے تھے۔ اُنہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ ملائشیا کے وزیر اعظم مہاتیر محمد نے اپنے گزشتہ دورہ چین کے دوران چینی سرمایہ کاری کے دو بڑے منصوبے منسوخ کر دئے تھے۔ یوں چین اب اس منصوبے میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے ملکوں کی شمولیت سے اسے توسیع دینے کا خواہشمند ہے۔

مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ سے وابستہ ماہر معاشیات اور بین الاقوامی مالیاتی ایجنسی (IMF) کے سابق اسسٹنٹ ڈائریکٹر ڈاکٹر زبیر اقبال نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سعودی عرب کی اقتصادی راہداری منصوبے میں شمولیت سے سعودی عرب کو چین کیلئے اپنی تیل کی برآمدات کیلئے گوادر کے ذریعے ایک نسبتاً سستا ترسیلی راستہ میسر آ جائے گا۔ اُنہوں نے کہا کہ سعودی عرب سمیت اس خطے کے ممالک تیل پر انحصار کرنے والی معیشت کو توسیع دینے اور اسے دیگر شعبوں تک بڑھانے کے خواہشمند ہیں جس کیلئے ناصرف چین کو دیگر اشیا برآمد کرنے بلکہ چینی اشیا درآمد کرنے میں بھی دلچسپی رکھتے ہیں۔

ڈاکٹر زبیر اقبال کا کہنا ہے کہ اس وقت معاشی ترقی اور اقتصادی فوائد کے زیادہ مواقع ایشیا میں ہی ہیں اور سعودی عرب بڑے پیمانے پر اس خطے میں سرمایہ کاری کا خواہاں ہے۔ اُنہوں نے کہا کہ قطر پہلے ہی سے چین اور جنوبی کوریا کو تیل برآمد کرتا ہے اور سعودی عرب سمیت اس خطے کے تیل اور گیس برآمد کرنے والے ممالک کیلئے پاکستان کا راستہ استعمال کرنے سے لاگت میں خاصی کمی ہو گی اور یہی وجہ ہے کہ یہ ممالک اقتصادی راہداری منصوبے میں شامل ہونا چاہتے ہیں۔

واضح رہے کہ حال ہی میں چینی وزیر خارجہ وانگ ژی کے دورہ پاکستان کے موقع پر چینی اور پاکستانی عہدیداروں کے درمیان چین پاکستان راہدری کے منصوبوں سے متعلق ہونے والے بات چیت کے دوران اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ اربوں ڈالر سے زائد مالیت کے سی پیک سے جڑے منصوبوں میں چین اور پاکستان کے مشترکہ دوست ممالک کو بھی سرمایہ کاری کی دعوت دی جائے گی۔

XS
SM
MD
LG