ایران کے تین سفارت کار اسلامی ممالک کی تنظیم (او آئی سی) میں ایران کی نمائندگی کرنے کے لیے سعودی عرب پہنچ گئے ہیں اور دونوں ممالک پانچویں براہِ راست مذاکرات کی تیاری بھی کر رہے ہیں۔
بعض مبصرین مشرق وسطیٰ کے حالات کے پس منظر میں اسے ایک بڑی پیش رفت قرار دے رہے ہیں۔ سال 2016ء کے بعد جب مشرق وسطیٰ کے ان دو بڑے حریف ملکوں کے درمیان سفارتی تعلقات منقطع ہوئے تھے یہ پہلا موقع ہے کہ ایران کے سفارت کار وہاں پہنچے ہیں۔
جہانگیر خٹک نیو یارک سٹی یونیورسٹی سے وابستہ ہیں اور بین الاقوامی امور پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے اسے ایک بڑی پیش رفت تو قرار دیا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ کئی دہائیوں سے جو رقابت چلی آ رہی ہے اس میں ایسے اقدامات سے یقیناً کچھ کمی تو آئے گی۔ لیکن اس رقابت میں فوری طور پر کسی بڑی کمی کے آثار نظر نہیں آ رہے۔
انہوں نے کہا کہ اس کی دو بڑی وجوہات ہیں۔ اوّل تو یہ دونوں جانب ابھی اعتماد کی بہت کمی ہے اور اس اعتماد کو بحال ہونے میں بڑا وقت لگے گا۔ اور دوسرے یہ کہ یمن میں دونوں کے درمیان بلا واسطہ یا پراکسی وار جاری ہے، جس کی شدت میں کمی کے کوئی آثار نظر نہیں آ رہے۔
تجزیہ کار نے کہا کہ ابو ظہبی میں حوثیوں کا حملہ اور وہاں ہلاکتیں اور یمن میں سعودی قیادت والے اتحاد کی شدید بمباری اور لوگوں کی ہلاکتیں یہ ظاہر کرتے ہیں کہ مشرق وسطیٰ کی ان دو طاقتوں کے درمیان ابھی اعتماد بحال ہونے میں بہت وقت لگے گا۔
جہانگیر خٹک نے کہا کہ ایسے میں جب امریکہ کی توجہ مشرق وسطیٰ پر کم ہوتی جا رہی ہے اور ایسٹ ایشیا پر بڑھ رہی ہے، دوسری طاقتیں اس خلا کو پر کرنے کے لیے آگے بڑھ رہی ہیں اور خود خطے کے ممالک بھی جو امریکہ کی چھتری کو اپنے تحفظ کی ایک بڑی ضمانت سمجھتے تھے، اب اس مقصد کے لیے دوسرے ملکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ بقول ان کے، بدلتے ہوئے علاقائی حالات میں خطے کی بڑی طاقتیں اپنی پالیسیوں میں تبدیلیاں بھی لا رہی ہیں اور سعودی عرب اور ایران کے درمیان یہ پیش رفت اسی تبدیلی کا مظہر پے۔
خیال رہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان بات چیت شروع کرانے میں، جس کے اب پانچویں دور کی تیاریاں ہو رہی ہیں، عراق نے ایک بڑا اہم کردار ادا کیا ہے۔ لیکن اس تمام تر پیش رفت کے باوجود تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ جب تک یمن کی جنگ کا کوئی حل نہیں نکلے گا اور اعتماد کی فضا قائم نہیں ہوگی۔ اس وقت تک خطے میں حالات معمول پر آنے کے امکانات کم ہیں۔
جہانگیر خٹک کا کہنا تھا کہ وہ سمجھتے ہیں کہ آنے والے دنوں میں اس حوالے سے چین بھی کوئی اہم رول ادا کرنے کی کوشش کر سکتا ہے، کیونکہ ایک جانب تو وہ ایران میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اور ایران پراس کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے۔ دوسری جانب، وہ عرب ملکوں سے بھی تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے اور جو نئے کھلاڑی اس خطے میں اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کے لیے کوشاں ہیں، ان میں چین بھی شامل ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر عظمہ شجاعت کا تعلق کراچی یونیورسٹی سے ہے۔ وائس آف امریکہ سے اس بارے میں گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جسے بین الاقوامی سیاسی اصطلاح میں 'سیاست کے کھیل میں نئی تبدیلی' کہا جاتا ہے، یہ صورت حال اس سے تعبیر کی جا سکتی ہے۔ اسے وقت اور حالات کے تقاضوں کے مطابق پالیسیوں میں تبدیلی تو کہا جا سکتا ہے، لیکن کیا اس کی نوعیت مستقل ہو گی یہ کہنا مشکل ہے، کیونکہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان اختلافات بہت گہرے ہیں اور دونوں متضاد نظریات اور انداز فکر کی نمائندگی کرتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آج کے حالات ظاہر کرتے ہیں کہ پیداوار و تقسیم اور معاشی حالات کے باہمی رشتے جغرافیائی سیاست سے زیادہ اہمیت اختیار کر چکے ہیں۔ اس اعتبار سے دونوں ممالک اپنے اپنے مفادات کے سبب صحیح قدم اٹھا رہے ہیں۔ لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ یہ سلسلہ زیادہ دنوں تک چل نہیں سکے گا، کیونکہ دونوں کے اپنے اپنے سخت موقف ہیں اور بہت سی باتیں ایسی آئیں گی جن پر دونوں میں سے کوئی بھی سمجھوتے پر آمادہ نہیں ہو گا۔
ڈاکٹر عظمہ کا خیال ہے کہ معاملات جہاں تک پہنچے ہیں ان کا فی الوقت تو خطے کی مجموعی صورت حال پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ لیکن اگر ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاملات اور آگے بڑھتے ہیں اور کچھ اعتماد کی فضا قائم ہوتی ہے تو شائد خطے کے دوسرے ملکوں پر بھی جن میں سے چند سعودی عرب کے حامی ہیں اور چند ایران کے، ان کے کچھ اثرات پڑیں۔
ڈاکٹر عظمہ نے کہا ہے کہ اس مرحلے پر یہ بھی ذہن میں رکھنا ضروری ہے کہ یہ صرف ایران اور سعودی عرب کے بلاکوں کا معاملہ نہیں ہے بلکہ ان کی سیاست اور رقابت سے دوسری طاقتوں کے مفادات بھی وابستہ ہیں۔ در اصل یہ ایک بڑا سیاسی کھیل ہے جو عرصے سے جاری ہے۔ کیا اس بڑے سیاسی کھیل کے باوجود دونوں کے درمیان دیرپا ایسی اعتماد سازی ہو سکے گی، جو سب کے حق میں بہتر ہو یہ ایک بہت بڑا سوال ہے جس کا جواب آنے والا وقت ہی دے سکتا ہے۔