سعودی عرب کی زیر قیادت فوجی اتحاد نے یمنی شیعہ باغیوں کی طرف سے ریاض کی طرف داغے گئے بیلسٹک میزائل کا الزام ایران پر عائد کرتے ہوئے متنبہ کیا ہے کہ اسے "جنگی کارروائی تصور کیا جا سکتا ہے" اور سعودی اتحاد "اس پر ردعمل" کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
پیر کو علی الصبح جاری ایک بیان میں کہا گیا کہ "اس معاملے میں ایران کا کردار اور حوثیوں پر ان کا براہ راست اثرورسوخ جارجیت کا واضح عمل ہے جو پڑوسی ممالک کو ہدف بناتا ہے اور خطے اور عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے۔"
بیان کے مطابق "لہذا اتحاد کی کمانڈ اسے ایرانی ریاست کی طرف سے کھلی فوجی جارحیت تصور کرتی ہے اور اسے سعودی عرب کی سلطنت کے خلاف جنگی قدم بھی تصور کیا جا سکتا ہے۔"
مزید برآں سعودی عرب، ایران کو مناسب وقت اور طریقے سے جواب دینے کا حق محفوظ رکھتا ہے۔
سعودی عرب کی زیر قیادت اتحاد نے 30 اکتوبر کو یمن کے لیے فضائی، سمندری اور زمینی رسائی بند کر دی تھی۔ اس بندش سے دو روز قبل بھی ایک بیلسٹک میزائل ریاض کی طرف داغا گیا تھا۔
ہفتہ کو بھی ایسا ہی ایک میزائل داغا گیا تھا لیکن اسے سعودی میزائل دفاعی نظام نے فضا میں ہی تباہ کر دیا تھا۔
متحدہ عرب امارات، بحرین، کویت، مصر، اردن، مراکش، سینیگال اور سوڈان، سعودی اتحاد میں وسائل فراہم کر رہے ہیں۔
یہ اتحاد 2015ء میں یمن کے دارالحکومت صنعا پر شیعہ حوثی باغیوں کے قبضے کے بعد تشکیل دیا گیا تھا۔
ایران کی طرف سے اس بیان پر تاحال کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔
کٹڑ سنی نظریات رکھنے والے سعودی حکومت امریکہ کی کلیدی اتحادی ہے اور شیعہ اکثریتی ملک ایران کے ساتھ اس کی پرانی مخاصمت چلی آ رہی ہے۔
امریکہ کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ بھی ایران پر مشرق وسطیٰ میں دہشت گرد گروپوں کی حمایت کا الزام عائد کرتے ہیں جسے تہران مسترد کرتا ہے۔