واشنگٹن —
سعودی عرب نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا غیر مستقل رُکن بننے سے انکار کردیا ہے۔
سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں, اس کی وجہ، اُس کے بقول، اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور دنیا میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے سے متعلق غیر مؤثر کردار بتائی جاتی ہے۔
سعودی عرب نے عالمی تنظیم میں ضروری اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، اِن مجوزہ اصلاحات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
سعودی عرب سے ’عرب نیوز‘ کے سینئر ایڈیٹر، سراج وہاب نے سعودی عرب کی جانب سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت سے انکار کی ممکنہ وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک عرصے سے سعودی عرب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عالمی تنظیم، خاص کر سلامتی کونسل، فوجی تنازعات کے شکار مختلف علاقوں میں امن کے قیام میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر رہی۔
اُن کا کہنا تھا کہ شام میں صدر بشارالاسد کی طرف سے شہریوں کے خلاف مبینہ کیمیائی ہتھیار کے استعمال اور دنیا بھر میں اِس کی مذمت کے باوجود ، صدر اسد کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔
اُنھوں نے اِس طرف توجہ دلائی کہ اس وقت دنیا، بقول اُن کے، دو بلاک میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک جانب امریکہ اور اُس کے اتحادی ہیں، جب کہ دوسری جانب، روس اور چین ہیں۔ اور اِس بنا پر، سنجیدہ مسائل پر کوئی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو رہا۔
دوسری جانب، واشنگٹن میں ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ فور پیس‘ سے منسلک سینئر تجزیہ کار، ڈاکٹر زبیر اقبال نے سعودی عرب کے اِس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سعودی عرب نے سکیورٹی کونسل کی رکنیت رد کرنی تھی تو آغاز میں ہی اُس نے رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کیوں کیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل کی رکنیت سے انکار کی وجہ، بقول اُن کے، مسئلے سے متعلق سعودی عرب حکمراں طبقے کے اندر اختلافات ہو سکتے ہیں، جہاں ایک گروپ عالمی سطح پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا حامی ہے، جبکہ دوسرا گروپ اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل میں شمولیت سے گریز کرنے سے مسئلے حل نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے اس فیصلے کے اثرات کے بارے میں ابھی کچھ کہنا، قبل از وقت ہے۔
ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے باعث سعودی عرب کبھی سلامتی کونسل کا رکن نہیں بنا تھا۔
یاد رہے کہ سلامتی کونسل کے 15میں سے 10غیر مستقل ارکان علاقائی بنیاد پر دو سال کے لیے رکن منتخب ہوئے ہیں اور سعودی عرب کا انتخاب اِسی پسِ منظر میں عمل میں آیا تھا۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے:
سعودی عرب کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں, اس کی وجہ، اُس کے بقول، اقوام متحدہ کا دوہرا معیار اور دنیا میں امن و سلامتی کو یقینی بنانے سے متعلق غیر مؤثر کردار بتائی جاتی ہے۔
سعودی عرب نے عالمی تنظیم میں ضروری اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ تاہم، اِن مجوزہ اصلاحات کی تفصیلات نہیں بتائی گئیں۔
سعودی عرب سے ’عرب نیوز‘ کے سینئر ایڈیٹر، سراج وہاب نے سعودی عرب کی جانب سے سلامتی کونسل کی غیر مستقل رکنیت سے انکار کی ممکنہ وجوہات بتاتے ہوئے کہا کہ ایک عرصے سے سعودی عرب میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ عالمی تنظیم، خاص کر سلامتی کونسل، فوجی تنازعات کے شکار مختلف علاقوں میں امن کے قیام میں کوئی خاطر خواہ کردار ادا نہیں کر رہی۔
اُن کا کہنا تھا کہ شام میں صدر بشارالاسد کی طرف سے شہریوں کے خلاف مبینہ کیمیائی ہتھیار کے استعمال اور دنیا بھر میں اِس کی مذمت کے باوجود ، صدر اسد کے خلاف کوئی مؤثر کارروائی نہیں کی گئی۔
اُنھوں نے اِس طرف توجہ دلائی کہ اس وقت دنیا، بقول اُن کے، دو بلاک میں تقسیم ہوچکی ہے۔ ایک جانب امریکہ اور اُس کے اتحادی ہیں، جب کہ دوسری جانب، روس اور چین ہیں۔ اور اِس بنا پر، سنجیدہ مسائل پر کوئی اتفاقِ رائے پیدا نہیں ہو رہا۔
دوسری جانب، واشنگٹن میں ’مڈل ایسٹ انسٹی ٹیوٹ فور پیس‘ سے منسلک سینئر تجزیہ کار، ڈاکٹر زبیر اقبال نے سعودی عرب کے اِس فیصلے پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اگر سعودی عرب نے سکیورٹی کونسل کی رکنیت رد کرنی تھی تو آغاز میں ہی اُس نے رکنیت حاصل کرنے کے لیے کوششیں کیوں کیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سلامتی کونسل کی رکنیت سے انکار کی وجہ، بقول اُن کے، مسئلے سے متعلق سعودی عرب حکمراں طبقے کے اندر اختلافات ہو سکتے ہیں، جہاں ایک گروپ عالمی سطح پر سعودی عرب کے اثر و رسوخ کو بڑھانے کا حامی ہے، جبکہ دوسرا گروپ اس کے برعکس سوچ رکھتا ہے۔
اُنھوں نے مزید کہا کہ سلامتی کونسل میں شمولیت سے گریز کرنے سے مسئلے حل نہیں کیے جاسکتے۔ تاہم، اُن کا کہنا تھا کہ سعودی عرب کے اس فیصلے کے اثرات کے بارے میں ابھی کچھ کہنا، قبل از وقت ہے۔
ماضی میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے باعث سعودی عرب کبھی سلامتی کونسل کا رکن نہیں بنا تھا۔
یاد رہے کہ سلامتی کونسل کے 15میں سے 10غیر مستقل ارکان علاقائی بنیاد پر دو سال کے لیے رکن منتخب ہوئے ہیں اور سعودی عرب کا انتخاب اِسی پسِ منظر میں عمل میں آیا تھا۔
تفصیل سننے کے لیے آڈیو رپورٹ پر کلک کیجئیے: