رسائی کے لنکس

سعودی عرب ، خواتین کے کار چلانے پر پابندی کا قانون غیر تحریری ہے


سعودی عرب ، خواتین کے کار چلانے پر پابندی کا قانون غیر تحریری ہے
سعودی عرب ، خواتین کے کار چلانے پر پابندی کا قانون غیر تحریری ہے

سعودی عرب کی تاریخ میں رواں سال 17 جون کوایک غیر معمولی واقعہ اس وقت پیش آیا جب کچھ سعودی شہریت رکھنے والی خواتین نے دارالحکومت ریاض کی سڑکوں پر بلا روک ٹوک کار چلائی۔ سعودی سرزمین پر یہ غیر معمولی واقعہ یوں ہے کہ یہاں خواتین کے کار چلانے پر پابندی عائد ہے۔

ان خواتین نے قانون کی خلاف ورزی کے ساتھ ساتھ ایک انوکھا کام یہ بھی کیا کہ کارچلانے کی ویڈیو سوشل ویب سائٹس پر اپ لوڈ کردی ۔ پھر کیا تھا قانون حرکت میں آگیا اور پکڑ دھکڑ شروع ہوگئی۔کار چلانے والی ایک خاتون کے خلاف مقدمہ چلا اور گزشتہ روز اسے سزا کے طور پر 10 کوڑے مارنے کی سزاسنائی گئی۔ ایسا ہرگز نہیں ہے کہ سزا کا قانون ابھی بنا ہو بلکہ یہ طویل عرصے سے موجود ہے تاہم اس قانون کے تحت سزا کا یہ پہلا واقعہ ہے۔ نئی اطلاعات کے مطابق شاہ عبد اللہ نے خاتون کی سزا ختم کردی ہے۔

عام طور پر سعودی پولیس خواتین ڈرائیورز کو روک کر ان سے پوچھ گچھ کرتی ہے اور خواتین کی جانب سے دوبارہ ڈرائیونگ نہ کرنے کی یقین دہانی پر انہیں تنببہ کرکے چھوڑ دیا جاتا ہے تاہم رواں سال جون کے بعد سے اب تک مذکورہ قانون کی خلاف ورزی کی مہم کے طور پر درجنوں خواتین سڑکوں پر گاڑیاں دوڑانے لگی ہیں لہذا حکام کی نظر میں اسے روکنے کے لئے کسی ایک کو سزا دینا ضروری تھا۔

سعودی عرب میں سزا پر عملدرآمد عموماً ایک ماہ کے دوران کیا جاتا ہے۔ ادھر جس خاتون کو دس کوڑوں کی سزا ملی ہے اس کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ وہ فیصلے کے خلاف اپیل دائر کریں گی لہذا سزاپر عمل درآمد میں ایک ماہ سے زیادہ کا وقت لگ سکتا ہے۔

سعودی عرب دنیا کا واحد ملک ہے، جہاں مقامی یا غیرملکی تمام خواتین پر ڈرائیونگ نہ کرنے کی پابندی عائد ہے۔ اس قانون کی وجہ سے بہت سے خاندان رہائشی ڈرائیورز رکھنے پر مجبور ہیں، اور جو خواتین 300 سے 400 ڈالر ماہانہ ڈرائیور کی تنخواہ دینے کی طاقت نہیں رکھتیں، انھیں مجبوراً اپنے دفتروں، اسکولوں ، بازار اور ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے مرد رشتے داروں پر ہی اکتفا کرنا پڑتا ہے۔

خواتین کی ڈرائیونگ پر پابندی کا کوئی قانون تحریری طور پر موجود نہیں ہے۔ اس پابندی کی بنیادی وجہ بنیاد پرست روایات اور مذہبی نظریات ہیں جو خواتین کو ا س بنیاد پر پابند رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر وہ انھیں آزاد رکھیں گے تو معاشرے میں برائی پھیل سکتی ہے۔

مذکورہ قانون اور سزا کو ختم کرانے کے لیے رواں سال میں جون سے درجنوں خواتین مہم چلا رہی ہیں۔ اس مہم کی بانی منال الشریف بھی ڈرائیونگ کے جرم میں دس دن سے زیادہ زیر حراست رہ چکی ہیں۔ انھیں دوبارہ ڈرائیونگ نہ کرنے کے عہد نامے پر دستخط کرنے اور میڈیا سے اس معاملے پر گفتگو نہ کرنے کے وعدے پر رہا کیا گیا تھا۔ انھوں نے خود اپنی ڈرائیونگ کی ویڈیو فیس بک پر پوسٹ کی ہے۔

منگل تک عدالتوں سے کسی خاتون کو سزا نہیں سنائی گئی تھی تاہم حال ہی میں پراسیکیوٹر کی جانب سے بہت سی خواتین کو پوچھ گچھ اور ان پر مقدمات چلانے کے لیے عدالت میں طلب کیا گیاتھا۔ ان خواتین میں سے ایک خاتون خانہ نجلہ الحریری نے صرف دو مرتبہ ڈرائیونگ کی، جو اس نے سعودی قوانین کی خلاف ورزی کے لیے نہیں، بلکہ ضرورت کے تحت کی تھی۔جلہ کا کہنا ہے، ”میرے پاس ڈرائیور نہیں ہے۔ مجھے اپنے بیٹے کو اسکول چھوڑنا اور اپنی بیٹی کو اس کے دفتر سے لینا تھا۔ یہ بات نجلہ نے جدہ سے ٹیلی فون پر ایک گفتگو میں بتائی۔

نجلہ کا کہنا ہے کہ جس روز شاہ عبداللہ نے خطاب کیا، میں اس پراسیکیوٹر کے دفتر میں بیٹھی تھی اور مجھ سے پوچھا جا رہا تھا کہ مجھے ڈرائیونگ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی، میں نے کتنی مرتبہ اور کہاں کہاں ڈارئیونگ کی۔نجلہ کو ایک ماہ کے دوران مقدمے کا سامنا کرنا ہوگا۔

XS
SM
MD
LG