سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض کے ایک کیفے میں 28 سالہ عبداللہ تھوڑا مضطرب دکھائی دے رہا ہے مگر اس کا کہنا ہے کہ وہ دو خواتین صحافیوں سے بات چیت کر کے خوش ہے۔
جب ہم خالی میزوں پر بیٹھے تو مینجر نے آ کر ہمیں کہا کہ ہم وہاں سے چلے جائیں۔ بہت سی دوسری جگہوں کی طرح یہ جگہ بھی صرف مردوں کے لیے مخصوص ہے۔
اگر سعودی مذہبی پولیس وہاں آ جائے تو یہ کاروبار کے لیے برا ہو گا۔ مذہبی پولیس کا کام وہاں لباس کے متعلق قوانین کو لاگو کرنا اور غیر شادی شدہ یا غیر متعلق مردوں اور عورتوں کو ایک دوسرے سے علیحدہ رکھنا ہے۔
ایک قریبی ریستیوران کے مینجر نے ہمیں فیملی سیکشن میں بٹھا دیا جہاں مرد اپنی بیویوں کے ساتھ بیٹھ سکتے ہیں یا عورتیں پردہ لگے خانوں میں بیٹھ سکتی ہیں۔ سعودی عرب میں کچھ بڑوں کو اس بات پر بھی اعتراض ہو سکتا ہے کہ مینیجر نے ہمیں یہ بات معلوم ہونے کے باوجود کہ ہم رشتہ دار یا شادی شدہ نہیں ہمیں اکٹھے بیٹھنے دیا۔
مگر عبداللہ کا کہنا ہے کہ نوجوان اب سوشل میڈیا کے ذریعے ایک دوسرے سے بات چیت کر رہے ہیں اور مردوں اور عورتوں کے درمیان غیر جنسی تعلق اور دوستی جیسے خیالات سے مانوس ہو رہے۔ عبداللہ کی پود کے دیگر افراد کا کہنا ہے کہ اگرچہ ملک کی نوجوان پہلے سے زیادہ کھلا ذہن رکھتے ہیں مگر وہ اپنی روایات چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتے۔
عبداللہ کا کہنا ہے کہ ’’پرانی نسل روایات کی پابند ہے۔ مگر ہمیں آزادی چاہیئے۔‘‘
تاہم پرانی نسل کے کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ نوجوانوں کو آزادی دینے کا مطلب منشیات، شراب اور شادی سے پہلے جنسی تعلقات قائم کرنے کی اجازت دینا ہے۔ ان کے خیال میں غیرملکی سوشل میڈیا پر ان چیزوں کا پرچار کر رہے ہیں۔
اپنی عمر اور سماجی رتبے کے باعث شیخ ترکی سلطان کہلانے والے ایک شخص نے کہا کہ ’’ہمارے نوجوانوں کو جس مسئلے کا سامنا ہے ہمارے خیال میں وہ غیر ملکیوں کی طرف سے ذہنی اور سماجی حملہ ہے۔‘‘
مردوں کے کپڑوں کی دکان پر اپنے یمنی دوست کے ساتھ قہوہ پیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سعودی نوجوانوں کو غیر ملکی ان کے گھروں کے اندر ہی انٹرنیٹ کے ذریعے منشیات، جسم فروشی اور دہشت گردی جیسی برائیوں کی طرف مائل کر سکتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انٹرنیٹ کچے ذہن نوجوانوں کو متاثر کرتا ہے جنہیں غیر ملکی اپنے سیاسی اور ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
تاہم عبداللہ اور اس کے 26 سالہ دوست عبدالرحمٰن کے لیے ’’آزادی‘‘ کا مطلب کچھ اور ہے۔ اس کا مطلب ہے اسکولوں، دفاتر اور دیگر عوامی مقامات پر مردوں اور عورتوں کے درمیان علیحدگی کو ختم کرنا۔ اس سے عورتوں کی تعلیم، ملازمت، جم اور پارکوں تک رسائی محدود ہو جاتی ہے۔ عبدالرحمٰن کا کہنا ہے کہ مخالف جنسوں کی علیحدگی ’’پیسے کا ضیاع‘‘ اور ’’نسل پرستی‘‘ ہے۔
ٹی شرٹ اور ٹوپی پہنے ہوئے عبدالرحمٰن نے کہا کہ سعودی عرب کے نصف معاشرے کی تشکیل کرنے والی عورتیں ریاض میں تھوڑی بہت تفریح کے مواقع سے بھی محروم ہیں کیونکہ وہ پردے اور بند دروازے کے پیچھے ہیں۔
ریاض میں عورتوں کے لیے ضابطہ لباس میں ڈھیلی عبایا شامل ہے جو انہیں تمام عوامی مقامات پر پہننا لازمی ہے مگر قانون میں چہرے کو ڈھانپنا لازمی نہیں مگر اکثر عورتیں اپنے آپ کو مکمل طور پر ڈھانپ کر رکھتی ہیں۔
سعودی عرب میں عورتوں کا ڈرائیونگ کرنا منع ہے۔ عبدالرحمٰن اور دیگر نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کے لیے یہ بہت تعجب کی بات ہے۔
عبدالرحمٰن نے کہا کہ ’’یہاں مردوں کے لیے کھل کر زندگی گزارنا مشکل ہے تو ذرا عورتوں کے بارے میں سوچیں۔‘‘
چند گز کے فاصلے پر صرف عورتوں اور لڑکیوں کے لیے مخصوص کافی کی ایک دکان پر ملاقات میں 23 سالہ پرائمری سکول ٹیچر عاصمہ محمد نے کہا کہ وہ نئی روایات کی نسبت پرانی روایات پسند کرتی ہیں۔
انہیں امید ہے کہ کالجوں میں عورتوں کے لیے نئے شعبوں میں تعلیم شروع کی جائے گی مگر ان کے خیال میں مردوں اور عورتوں کو اکٹھے کلاس میں نہیں بیٹھنا چاہییے۔ مخلوط تعلیم عام ہو رہی ہے مگر عاصمہ اس کو ناپسند کرتی ہیں۔
’’اب کچھ خاندان بھی یہ تسلیم کرنے لگے ہیں کہ جوڑے شادی سے پہلے ایک دوسرے کے دوست ہوں۔ میری اپنی والدہ چاہتی ہیں کہ میں اپنے منگیتر کے ساتھ باہر جاؤں اور اس کو شادی سے پہلے زیادہ جانوں مگر میں نہیں سمجھتی کہ یہ درست طریقہ ہے۔‘‘
عاصمہ کی چھوٹی بہن 21 سالہ انجاد محمد جو ہمارے ساتھ آ کر بیٹھ گئی تھی اور جب عاصمہ اپنے موبائل فون پر بات کے لیے اٹھ کر گئی تو اس نے اپنی بڑی بہن کے بارے میں کہا کہ ’’وہ روایات کی پابندی کرتی ہے مگر میں نئے طور طریقے پسند کرتی ہوں۔‘‘
اس کا کہنا تھا کہ پانچ سال پہلے تک بھی یہ بہت عجیب بات تھی کہ دو نوجوان عورتیں شہر میں رات کو گھومیں پھریں اور کافی اور فری وائی فائی کے لیے یہاں رکیں۔
مگر انجاد کا کہنا ہے کہ اچھے ’’نئے طور طریقوں‘‘ میں شادی کرنے کا نیا طریقہ شامل نہیں جس کی بات عبداللہ اور اس کے دوست نے کی تھی۔ عبداللہ نے بتایا تھا کہ نوجوان سعودی لڑکے اور لڑکیاں اپنے خاندان کی طرف سے طے کی گئی شادی سے اجتناب کرتے ہیں۔ اس کی بجائے وہ انٹرنیٹ پر شادی کے امیدواروں سے ملتے ہیں، فیس بک کے ذریعے ایک دوسرے کو جانتے ہیں اور پھر اپنے والدین سے کہہ کر شادی طے کرا دیتے ہیں مگر یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ ایک دوسرے سے کبھی نہیں ملے۔
عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’آج کل لڑکیاں ایسے شخص سے شادی کرنا چاہتی ہیں جسے وہ جانتی ہوں۔ اگر میں روایتی طریقے سے شادی کرنا چاہوں تو میں لڑکی کا چہرہ بھی نہیں دیکھ سکتا۔‘‘ تاہم اگر لڑکے لڑکی کی شادی طے ہونے سے پہلے انٹرنیٹ پر بات چیت ہوئی ہو تو وہ ایک دوسرے کو دیکھ سکتے ہیں۔
انجاد اس بات پر اتفاق کرتی ہے کہ لڑکیوں کو زیادہ یونیورسٹیوں میں داخلے اور عورتوں کو کار چلانے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ مگر اس کا کہنا تھا کہ اجنبی مردوں سے ملنے کی بجائے شادی کے لیے موزوں رشتہ تلاش کرنے کے کئی اور طریقے ہیں۔ ایک سال پہلے اس کی شادی اپنے کزن کے ساتھ ہوئی تھی جسے وہ بچپن سے جانتی ہے۔
دبئی میں مردوں اور عورتوں کے درمیان مغربی طرز کا میل جول دیکھ کر انجاد نے کہا کہ ان کے خیال میں اس سے ان کی عمومی طور پر پرہیزگار قوم گناہ کی پستیوں میں گر جائے گی۔
اس نے ہنستے ہوئے کہا کہ وہ نہیں چاہتی کہ سعودی معاشرہ ایسے تبدیل ہو۔ ’’میں تو سوچنا بھی نہیں چاہتی کہ اس سے کیا ہو گا۔‘‘
ریاض کے بارونق شاپنگ مال ہی ایسی جگہ ہیں جہاں عورتیں بڑی تعداد میں نظر آتی ہیں۔
وہاں ایک دکان کے مینیجر نے کہا کہ ریاض میں شاپنگ مال وہ واحد جگہ ہیں جہاں مرد اور عورتیں ہمیں ایک جگہ نظر آتے ہیں۔ اس کے بقول اس کے ساتھ بہت سی ملازم خواتیں کام کرتی ہیں جس کے باعث مذہبی پولیس نے اسے کئی مرتبہ اس لیے تفتیش کے لیے بلایا کیونکہ وہ کھلے عام ان کے ساتھ کام کے سلسلے میں بات چیت کرتا تھا۔ اس نے مایوس کن انداز میں کہا کہ ’’انہیں بھول جائیں۔‘‘
ایک عربی کیفے میں ہماری ملاقات تین لڑکیوں سے ہوئی جو وہاں کافی کے ساتھ کیک اور کھجوریں کھا رہی تھیں۔
پندرہ سالہ باسمہ، 17 سالہ سلمیٰ اور ان کی 27 سالہ بہن امانی اپنی بیٹی کے ساتھ وہاں موجود تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ معاشرے میں تبدیلیوں کے ساتھ روایات کی پاسداری کے باعث وہ محفوظ ہیں، کم از کم اپنے سخت والدین سے۔
سلمیٰ نے کہا کہ اگر وہ پردے میں ہوں اور لڑکوں سے دور رہیں تو ان کے والدین انہیں کئی مرتبہ رات کو باہر جانے دیتے ہیں۔
’’جہاں اعتماد ہو، وہاں آزادی ہوتی ہے۔‘‘