ایسے میں جب ایران اور عالمی طاقتیں ایک ممکنہ جوہری معاہدے کی جانب بڑھ رہی ہیں، سعودی عرب کو کئی بڑی تبدیلیوں کا سامنا ہے۔ مبصرین کی رائے ہے کہ ایران پر عائد پابندیاں ہٹائے جانے سے تیل کی فروخت میں مسابقت میں اضافے کے علاوہ سعودی عرب کے لیے دیگر دور رس نتائج برآمد ہو سکتے ہیں۔
سعودی عرب اور ایران ایک دوسرے کے دوست نہیں۔ اور سعودی عرب اپنے دیرینا اتحادی امریکہ کی قیادت میں عالمی طاقتوں اور ایران کے درمیان ممکنہ جوہری معاہدے سے اضطراب کا شکار ہو گیا ہے۔
گلف سٹیٹ اینالیٹک کے شریک بانی جارجو کافیرو کے مطابق اگر ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کرنے کے بدلے میں اس پر عائد اقتصادی پابندیاں اٹھائے جانے کا معاہدہ طے پا جائے تو اس سے سعودی عرب کو بہت نقصان پہنچے گا۔
’’سعودی عرب ایران کے امریکہ کے ساتھ بہتر ہوتے ہوئے تعلقات کو اپنے مفادات کے لیے ایک بہت بڑے خطرے کے طور پر دیکھتا ہے۔‘‘
ایرانی اثر و رسوخ
انہوں نے کہا کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان اتحاد جزوی طور پر دونوں کے ایران کے بارے میں خدشات کی بنیاد پر قائم ہے۔
مستقبل میں اگر امریکہ اور سعودی عرب کے خدشات ایک جیسے نہیں رہتے تو سعودی عرب اور اس کے خلیجی اتحادیوں کے خیال میں مغربی سلامتی کے لیے ان کی قدر ’’وقت کے ساتھ کم‘‘ ہو جائے گی۔
کافیرو مطابق صرف ارضی سیاسیات ہی سعودی عرب کی پریشانی کا باعث نہیں۔ اگر ایران پر عائد عالمی اقتصادی پابندیاں ختم ہو جائیں تو وہ تیل کے کاروبار میں ایک بڑا حریف بن جائے گا۔
گزشتہ سال کے دوران تیل کی عالمی قیمتیں تیزی سے نیچے گریں، مگر سعودی عرب نے عالمی منڈی میں اپنا حصہ برقرار رکھنے کے لیے تیل کی پیداوار کم نہیں کی، مگر اس حکمت عملی کے کچھ منفی نتائج برآمد ہوئے ہیں۔
’’سعودی عرب پر تیل کی کم قیمتوں کا اثر ہو رہا ہے اور ملک کا خزانہ تیزی سے خالی ہو رہا ہے۔‘‘
کافیرو کا کہنا تھا کہ ہمسایہ ملک یمن سے ایک ’’بہت مہنگی‘‘ جنگ کے باعث سعودی عرب کی مالی مشکلات میں اضافہ ہوا ہے۔
تیل کی برآمد، جارحیت
ایرانی حکام نے کہا ہے کہ اگر اس پر عائد پابندیاں ہٹا لی جائیں تو وہ اپنی تیل کی برآمد دگنی کر دے گا، جس سے نا صرف تیل کے سب سے بڑے ایکسپورٹر سعودی عرب کے ساتھ مسابقت پیدا ہو گی، بلکہ اس سے تیل کی قیمتوں میں مزید کمی ہو سکتی ہے۔
مبصرین کی رائے ہے کہ اگر جوہری معاہدہ طے نہیں پاتا تو بھی سعودی عرب کو اس کا نقصان پہنچے گا کیونکہ اس کے بعد ایران خطے میں مزید جارحیت کا مظاہرہ کرے گا۔ ان کی رائے ہے کہ معاہدہ نہ ہونے کی صورت میں ایران کے اندر ان مذاکرات کے مخالفین کو شہہ ملے گی اور وہ علاقائی تنازعات میں مزید جارحانہ مؤقف اختیار کریں گے۔
باور کیا جاتا ہے کہ ایران شام اور عراق کی جنگوں میں بھرپور طریقے سے ملوث ہے اور یمن میں سعودی عرب کے خلاف لڑنے والے حوثی باغیوں کی مالی معاونت بھی کر رہا ہے۔
سعودی حکام اور جوہری مذاکرات کے دیگر ناقدین کا کہنا ہے کہ معاہدہ طے ہونے سے ایران کے پاس ان جنگوں میں لگانے کے لیے مزید پیسہ دستیاب ہو گا۔