پاکستان کی سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی کے حلقہ این اے 75 ڈسکہ کا ضمنی انتخاب دوبارہ کرانے سے متعلق الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رکھتے ہوئے حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف کی درخواست مسترد کر دی ہے۔
جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب کے الیکشن کمیشن کے حکم کے خلاف اپیل پر سماعت کی۔
عدالت نے جمعے کو اپنے مختصر فیصلے میں قرار دیا کہ حلقے میں دوبارہ انتخاب ہو گا اور اس سلسلے میں الیکشن کمیشن کا فیصلہ برقرار رہے گا۔
جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ تفصیلی فیصلہ بعد میں جاری کیا جائے گا۔
یاد رہے کہ الیکشن کمیشن نے 19 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب کو کالعدم قرار دیا تھا اور کہا تھا کہ یہ انتخاب شفاف اور منصفانہ نہیں تھا۔
کمیشن نے پورے حلقے میں دوبارہ پولنگ کرانے کا حکم دیا تھا جب کہ حکمراں جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی نے کمیشن کے اس حکم نامے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے قومی اسمبلی کے حلقہ 75 ڈسکہ میں دوبارہ ضمنی انتخاب کے لیے 10 اپریل کی تاریخ مقرر کی تھی۔
جمعے کو سماعت کے دوران جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ الیکشن کمیشن ڈسکہ میں مناسب اقدامات کرنے میں ناکام رہا تھا۔ پریزائیڈنگ افسران جس نے بھی غائب کیے اس نے انتخابی عمل کو دھچکا لگایا ہے۔ اگر انتخابی نتائج متاثر ہوں تو دوبارہ پولنگ ہو سکتی ہے۔
'فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں'
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے تحریک انصاف کے مرکزی رہنما عثمان ڈار نے کہا کہ وہ عدالتی فیصلے کو تسلیم کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وہ نون لیگ کی طرح اپنے خلاف آنے والے فیصلوں پر عدالتوں کے خلاف بات نہیں کریں گے۔
اس موقع پر ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں حکمراں جماعت کے امیدوار علی اسجد ملہی کا کہنا تھا کہ عدالتی فیصلے پر نظرثانی کی اپیل کا حق وہ رکھتے ہیں اور تفصیلی فیصلہ سامنے آنے کے بعد ہی ان کی درخواست مسترد ہونے کی وجوہات سامنے آ سکیں گی۔
اسجد ملہی کا مزید کہنا تھا کہ ڈسکہ کے عوام کو فیصلہ کرنا ہے کہ ضمنی انتخاب میں کون جیتا اور کون ہارا۔
عدالتی فیصلے پر مسلم لیگ (ن) کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا ہے کہ ڈسکہ کے عوام نے ضمنی انتخاب کے دوران اور بعد میں ووٹ پر پہرا دیا۔ پاکستان کے عوام جاگ چکے ہیں اور اپنا حق پہچانتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ سپریم کورٹ کا حکم عوام کے مینڈیٹ کو چوری کرنے والوں کے لیے واضح پیغام ہے اور یہ پیغام ان لوگوں کے لیے بھی ہے جو کہہ رہے تھے کہ مسلم لیگ (ن) پر جمعہ بھاری ہوتا ہے۔
ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں ہوا کیا تھا؟
این اے 75 کے ضمنی انتخاب میں اصل مقابلہ حکمراں جماعت پاکستان تحریکِ انصاف کے امیدوار علی اسجد ملہی اور حزبِ اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ (ن) کی امیدوار نوشین افتخار کے درمیان تھا۔
یہ نشست مسلم لیگ (ن) کے رکنِ اسمبلی سید افتخار الحسن شاہ کے انتقال کی وجہ سے خالی ہوئی تھی۔
انیس فروری کو حلقے میں پولنگ کے دوران بدنظمی کے واقعات رپورٹ ہوئے تھے جب کہ فائرنگ کے واقعے میں دو افراد ہلاک بھی ہوئے تھے۔
ضمنی انتخاب کے دوران رات گئے 20 پولنگ اسٹیشنز کے پریزائیڈنگ افسران اچانک 'غائب' ہو گئے تھے جو اگلی صبح ریٹرننگ افسر کے پاس پہنچے۔
پریزائیڈنگ افسران کے بروقت نہ پہنچنے سے پہلے مسلم لیگ (ن) کی نوشین افتخار کو اسجد ملہی پر سبقت حاصل تھی لیکن مذکورہ 20 پولنگ اسٹیشنز کے نتائج کے بعد اسجد ملہی جیت گئے تھے۔ تاہم الیکشن کمیشن نے نوشین افتخار کی شکایت پر حلقے کے نتائج روک دیے تھے اور تحقیقات کا اعلان کیا تھا۔
الیکشن کمیشن نے پریزائیڈنگ افسران کے غائب ہونے اور آئی جی و چیف سیکرٹری کی طرف سے عدم تعاون پر ایک پریس ریلیز بھی جاری کی تھی۔
بعد ازاں الیکشن کمیشن میں ہونے والی سماعت کے بعد کمیشن نے ڈسکہ انتخاب کو کالعدم قرار دیتے ہوئے دوبارہ الیکشن کرانے کا حکم دیا تھا۔ کمیشن نے پولیس اور انتظامی افسران کے خلاف سخت احکامات بھی دیے تھے۔
کمیشن نے ڈسکہ میں دوبارہ انتخاب کے لیے ابتدائی طور پر 10 اپریل کی تاریخ مقرر کی تھی تاہم سپریم کورٹ نے نئی تاریخ کو مؤخر کر دیا تھا۔
جمعے کو سپریم کورٹ نے حلقے میں دوبارہ انتخاب کے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو برقرار رکھتے ہوئے پورے حلقے میں دوبارہ انتخاب کا حکم دیا ہے جس کے بعد الیکشن کمیشن اس حلقے میں دوبارہ انتخاب کی تاریخ کا اعلان کرے گا۔
عدالتی فیصلے کے بعد پاکستان مسلم لیگ (ن) کی نائب صدر مریم نواز نے ایک ٹوئٹ میں کہا ہے کہ ایک بار پھر ثابت ہو گیا کہ عمران خان حکومت نے ڈسکہ کے عوام کے ووٹ پر "ڈاکہ" ڈالا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ صرف ری الیکشن سے بات نہیں بنے گی۔ ووٹ چوری کرنے اور الیکشن کمیشن کے عملے کو اغوا کرنے والوں کو جرم کا حساب دینا ہوگا۔