سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا اسمبلی کے انتخابات ملتوی کرنے کے الیکشن کمیشن کے اقدام پر کیس کی سماعت مکمل کر لی ہے۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے اعلان کیا کہ اس کیس کا فیصلہ منگل کو سنایا جائے گا۔
قبل ازیں جب پیر کو سماعت کا آغاز ہوا تو چیف جسٹس نے ریمارکس دیے ہیں کہ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی۔ کسی جج کو بینچ سے نکالا گیا نہ کوئی رضاکارانہ الگ ہوا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں تین رکنی بینچ نے تحریکِ انصاف کی درخواستوں پر سماعت کی۔
پیر کو سماعت کے دوران اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان نے تین رکنی بینچ پر اعتراض اٹھاتے ہوئے عدالت سے استدعا کی رولز بننے تک سماعت مؤخر کی جائے۔ جس پر بینچ میں شامل جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ آئینی درخواست کے رولز بنے ہوئے ہیں تو کارروائی کیسے موخر کریں؟
اٹارنی جنرل نے استدعا کی کہ جو ججز معاملے کی سماعت کا حصہ نہیں رہے ان پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے اور 2-3 اور 3-4 کا فیصلہ باقی دو ججز کو کرنے دیا جائے۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ 27 فروری کے نو ججز کے حکم نامے سے دکھائیں کہ بینچ سے کون الگ ہوا۔ عدالتی ریکارڈ کے مطابق کسی جج نے سماعت سے معذرت نہیں کی اور نو ارکان نے چیف جسٹس کو معاملہ بھجوایا۔
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل کو کہا کہ اگر لارجر بینچ کے نکتے پر دلائل دینا چاہیں تو ضرور دیں جس پر منصور عثمان اعوان نے کہا کہ وہ آگے چل کر اس پر بھی دلائل دیں گے۔
اٹارنی جنرل کی متفرق درخواست
اٹارنی جنرل منصور عثمان اعوان کی جانب سے پیر کو وفاقی حکومت کی ایک درخواست عدالت میں جمع کرائی گئی ہے جس میں عدالت سے تحریک انصاف کی درخواست مسترد کرنے کی استدعا کی گئی ہے۔
درخواست میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اگر عدالت یہ درخواست سننا بھی چاہتی ہے تو چیف جسٹس کی سربراہی میں تین رکنی بینچ اس معاملے کو نہ سنے بلکہ ان جج صاحبان پر مشتمل بینچ تشکیل دیا جائے جو اب تک اس معاملے کی سماعت میں شامل نہیں رہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ سر بمہر لفافوں میں رپورٹ فراہم کریں۔ جائزہ لے کر مواد واپس کر دیں گے۔ کوئی سوال ہوا تو اس کا جواب آپ سے لیں گے۔ آپ چاہیں تو جواب تحریری طور پر بھی دے سکتے ہیں۔
اس موقع پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ حساس معاملات کو سمجھتے ہیں، وہ پبلک نہیں ہونے چاہیئں۔ نیشنل سیکیورٹی اہلکاروں، عوام کے لیے مشکلات پیدا نہیں کرنا چاہتے۔
جس پر علی ظفر نے کہا کہ حساس ترین معلومات کا جائزہ میں بھی نہیں لینا چاہوں گا۔ اس مقدمے میں سیکیورٹی ایشو دیکھنا ضروری نہیں۔
سیکیورٹی معاملات کے حوالے سے سیکریٹری دفاع نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریزرو فورسز کی طلبی کے لیے وقت درکار ہوتا ہے ریزرو فورسز کی تربیت بھی کی جاتی ہے۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ فوج کی بڑی تعداد سرحدوں پر بھی تعینات ہے۔ الیکشن ڈیوٹی کے لیے جنگ لڑنے والے اہلکاروں کی ضرورت نہیں ہوتی۔
اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے ہدایت کی کہ جن علاقوں میں سیکیورٹی صورتِ حال حساس ہے ان کی نشاندہی کریں۔ الیکشن کمیشن نے 45 فی صد پولنگ اسٹیشنز کو حساس قرار دیا ہے۔ جھنگ ضلع پہلے حساس ہوتا تھا اب نہیں۔ جنوبی پنجاب اور کچے کا علاقہ بھی حساس تصور ہوتا ہے۔
بعد ازاں عدالت نے سیکریٹری دفاع سے دو گھنٹے میں تحریری رپورٹ طلب کر لی۔
جسٹس منیب اختر کا کہنا تھا کہ جو زبانی بریفنگ دینا چاہتے ہیں وہ لکھ کر دے دیں۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری دفاع کو ہدایت کی کہ اپنی پوری کوشش کریں۔
بعد ازاں سیکریٹری دفاع نے منگل تک مہلت مانگ لی۔ عدالت نے سیکریٹری دفاع کو منگل تک رپورٹ دینے کی مہلت دے دی۔
اس کے بعد سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ عدالت میں پیش کی گئی جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے استفسار کیا کہ کیا یہ رپورٹ بھی حساس ہے؟
اٹارنی جنرل نے کہ سیکریٹری خزانہ کی رپورٹ آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات کے تناظر میں ہے۔
واضح رہے کہ سیکریٹری خزانہ طبیعت ناساز ہونے کے باعث پیش نہیں ہوسکے جب کہ ایڈیشنل سیکرٹری خزانہ عامر محمود عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام اپنی جگہ اہمیت کا حامل ہے۔ کرنٹ اکاؤنٹ اور مالی خسارہ کم کیا جا رہا ہوگا۔ آمدن بڑھا کر اور اخراجات کم کر کے خسارہ کم کیا جاسکتا ہے۔ انہوں نے یہ بھی استفسار کیا کہ کون سا ترقیاتی منصوبہ 20 ارب روپے سے کم ہے؟
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ درخواست گزار کے مطابق ارکان کو 170 ارب روپے کا فنڈ دیا جا رہا ہے۔
اٹارنی جنرل نے کہا کہ یہ اکتوبر 2022 کی بات ہے۔ ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے اس موقع پر بتایا کہ پی ایس ڈی پی کے تحت فنڈز پلاننگ کمیشن جاری کرتا ہے۔ ترقیاتی فنڈز پر کوئی کٹ نہیں لگایا گیا۔ 170ارب روپے جمع کرنے کے لیے نئے ٹیکس لگائے گئے۔
اس پر جسٹس منیب اختر نے کہا کہ 20 ارب روپے دینے سے بجٹ پر کتنے فی صد فرق پڑے گا۔ کیا کھربوں روپے کے بجٹ سے 20 ارب روپے نکالنا ممکن نہیں؟ وزیر خزانہ کا بیان تھا کہ فروری میں 500 ارب روپے سے زائد کا ٹیکس جمع ہوا۔ اندازہ ہے کہ بجٹ خسارہ ابھی موجود ہے۔
چیف جسٹس نے اس موقع پر کہا کہ پیٹرولیم مصنوعات پر حکومت کو خسارہ 157ارب روپے تھا۔ خسارہ 177 ارب ہوجاتا تو کیا ہو جاتا۔
ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ خسارہ طے ہو چکا ہے۔
تو چیف جسٹس نے پوچھا کہ کیا سرکاری حکام کی تنخواہوں میں کمی نہیں کی جا سکتی؟ ججوں سے آغاز کریں۔ ان سے تنخواہیں کم کرنا کیوں شروع نہیں کرتے؟
اس کے ساتھ ساتھ چیف جسٹس نے یقین دہانی کرائی کہ کوئی قانونی رکاوٹ ہے تو عدالت ختم کر دے گی۔ پانچ فی صد تنخواہ تین اقسام میں کاٹی جا سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کو بھی اخراجات کم کرنے کا کہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کونسا مالی امور کا ماہر عدالت کو بریف کرے گا۔
اس پر عرفان قادر نے کہا کہ اگر عدالت ذہن بنا چکی ہے تو بتا دیں۔ ان کے بقول ہمارا مؤقف سن لیں پھر سیکریٹری سے بات کر لیں۔
اس پر چیف جسٹس نے ان سے سوال کیا کہ آپ کو کس نے کہا ہم نے طے کر لیا ہے؟
تو عرفان قادر کا کہنا تھا کہ عدالت سوشل میڈیا پر چلنے والی باتوں کا بھی نوٹس لے۔
اس پر چیف جسٹس نے از خود نوٹس لینے سے صاف طور پر منع کرتے ہوئے کہا کہ سوموٹو نہیں لیں گے۔ آپ درخواست دیں۔
چیف جسٹس کا مزید کہنا تھا کہ ریونیو بڑھانے میں زیادہ وقت لگے گا۔ کس شعبے سے اخراجات کم کیے جا سکتے ہیں۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ الیکشن پہلے ہو جائیں تو پورا 450 ارب روپے بچ سکتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ حکومت ہچکچاہٹ کا شکار ہے۔ حکومت نے کہا کسی سے بات نہیں کریں گے۔ عدالت فیصلہ کرے۔ 450 ارب روپے خرچ نہ ہونے کی وجہ اخراجات میں کمی ہے۔ ترقیاتی اخراجات کم نہیں کرنے تو غیر ترقیاتی اخراجات کم کر دیں۔
اس پر ایڈیشنل سیکریٹری خزانہ نے کہا کہ آپریشنل اخراجات اور تنخواہیں ہی غیر ترقیاتی اخراجات ہوتے ہیں۔
چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ حکومت نے اخراجات کم کرنے کے لیے اقدامات کیے ہیں۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ یہ مثال بن گئی تو ہمیشہ مالی مشکلات پر الیکشن نہیں ہوں گے۔
اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ آئندہ مالی سال کے بجٹ میں پیسے رکھیں گے۔
بعد ازاں سماعت میں وقفہ کر دیا گیا۔ سماعت کے بعد سپریم کورٹ میں سماعت کا آغاز ہوا تو الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے دلائل شروع کیے۔
عرفان قادر کا کہنا تھا کہ اگر جج پر اعتراض ہو تو وہ بینچ سے الگ ہو جاتے ہیں۔ ایک طرف ایک جماعت دوسری طرف تمام جماعتیں ہیں۔ بینچ سے جانب داری منصوب کی جا رہی ہے۔ پوری پی ڈی ایم ماضی میں بھی فل کورٹ کا مطالبہ کر چکی ہے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کا مزید کہنا تھاکہ فل کورٹ پر عدالت اپنی رائے دے چکی ہے۔ عدالت پر عدم اعتماد نہیں، انصاف ہوتا نظر آنا چاہیے۔ عدالت کا ایک فیصلہ پہلے ہی تنازعے کا شکار ہے۔ فی الحال انصاف ہوتا ہوا نظر نہیں آ رہا۔ میری نظر میں انصاف نہیں ہو رہا۔ ممکن ہے کچھ غلط فہمی ہو۔ انتخابات کی تاریخ دینے کا فیصلہ الیکشن کمیشن پر چھوڑنا چاہیے۔
انہوں نے مزید کہا کہ فیصلہ تین دو کا تھا یا چار تین کا، اس پر بات ہونی چاہییے۔ نو میں سے چار ججوں نے درخواستیں خارج کیں۔ تین ججوں نے حکم جاری کیا۔ یکم مارچ کا عدالتی حکم اقلیتی نوٹ تھا۔ عدالت اس تنازعے کو حل کرنے کے لیے اقدامات کرے۔ فیصلے کی تناسب کا تنازع ججوں کا اندرونی معاملہ نہیں ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ درخواستیں خارج کرنے والے چاروں ججوں کو بھی بینچ میں شامل کیا جائے۔ سرکلر سے عدالتی فیصلے کا اثر ذائل نہیں کیا جاسکتا۔ چیف جسٹس اپنے سرکلر پر خود جج نہیں بن سکتے۔ عوام کا عدلیہ پر اعتماد ہونا لازمی ہے۔ ایک گروپ کے بنیادی حقوق پر اکثریت کے حقوق کو ترجیح دینی چاہیے۔
الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے مزید کہا کہ قومی مفاد آئین اور قانون پر عمل درآمد میں ہے۔ آئین میں 90 دن میں انتخابات ہونا الگ چیز ہے۔ ملک میں کئی سال سے قومی و صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات اکٹھے ہوتے ہیں۔ ملک بھر میں انتخابات ایک ساتھ ہونے چاہئیں۔
انتخابات کے حوالے سے دلائل میں انہوں نے مزید کہا کہ ایک ساتھ انتخابات سے مالی طور پر بھی بچت ہو گی۔ قومی اسمبلی کے انتخابات میں بھی نگران حکومت ضروری ہے۔ صوبائی اسمبلییاں چند ماہ پہلے تحلیل ہوئی ہیں دو سال پہلے نہیں۔ ہائی کورٹس میں مقدمات کی سماعت روکنا آئین کے مطابق نہیں۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ خیبر پختونخوا میں گورنر نے الیکشن کی تاریخ دے دی ہے۔ پنجاب میں صدر کو تاریخ دینے کا حکم قانون کے مطابق نہیں تھا۔ صدر آزادانہ طور پر کوئی فیصلہ کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ صدر کو تاریخ دینے کا حکم دینا خلاف آئین ہے۔
صدر ہر کام میں وفاقی کابینہ کی تجویز پرعمل کرنے کے پابند ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن ایکٹ میں صدر کو اختیار صرف عام انتخابات کے لیے ہے۔ ملک بھر میں عام انتخابات ایک ساتھ ہی ہونے ہیں۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے فیصلے نے از خود نوٹس کے مقدمات پر سماعت سے روکا ہے۔ چیف جسٹس سے درخواست ہے کہ اندرونی تنازعے کو حل کیا جائے۔
عرفان قادر نے درخواست کی کہ از خود نوٹس کے مقدمات پر سماعت تنازعے کے حل تک روکی جائے۔ جسٹس فائز عیسی سینئر جج ہیں ان کے فیصلے کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
چیف جسٹس نے یہ بھی کہا کہ ان کی جسٹس قاضی فائز عیسی سے دو دن قبل ملاقات ہوئی ہے۔ ان معاملات پر تمام جج جلد ملاقات کریں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسی سے ملاقات میں کچھ ایشوز ہائی لائٹ ہوئے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ سپریم کورٹ کے قواعد بنانے کے لیے عنقریب فل کورٹ اجلاس بلائیں گے۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ والے فیصلے کے نتیجے میں ایک جج نے سماعت سے معذرت کی۔
اس موقع پر الیکشن کمیشن کے وکیل عرفان قادر نے کہا کہ کبھی کبھی تعریف کر دیا کریں۔ سوشل میڈیا پر آپ ٹاپ ٹرینڈ کر رہے ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم صرف اللہ سے خیر مانگتے ہیں۔ آپ سوشل میڈیا کی بات کر کے اپنا وقت ضائع کر رہے ہیں۔
عرفان قادر نے کہا کہ آپ اس وقت عوامی چیف جسٹس ہیں۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ہم سوشل میڈیا نہیں دیکھتے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ جو وجہ میں نے سوچ کر بینچ بنایا وہ بتانے کا پابند نہیں ہوں۔
عرفان قادر نے کہا کہ جسٹس اعجاز الاحسن کا بہت مداح ہوں۔
جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ مداحی پر آپ کا مشکور ہوں۔
اس موقع پر مسلم لیگ (ن) کے وکیل اکرم شیخ عدالت میں پیش ہوئے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدالت کی معاونت کے لیے پیش ہو رہے ہیں۔ کوئی پارٹی مجھے غیر قانونی کام کرنے کا کہے تو کیا میرا اپنا دماغ نہیں کہ فیصلہ کر سکوں۔ عدالت کا بے حد احترام کرتے ہیں۔
اس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اکرم شیخ کے ساتھ کامران مرتضیٰ اور فاروق نائیک کا احترام کرتے ہیں۔ حکومت میں شامل جماعتوں نے تین رکنی بینچ پر عدم اعتماد کیا ہے۔
آپ ذاتی حیثیت میں نہیں آئے سیاسی جماعتوں کی نمائندگی کر رہے ہیں۔
جسٹس منیب اختر نے کہا کہ آپ کا وکالت نامہ ذاتی حیثیت میں نہیں ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اعلامیہ عدالتی عملے نے نکال کر دیا۔
اکرم شیخ کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) سے کوئی فیس نہیں لی۔
عدالت نے کبھی مجھے مایوس واپس نہیں بھیجا۔
چیف جسٹس نے کہا کہ آپ تحریری معروضات دے دیں جائزہ لے لیں گے۔ آئین اور قانون واضح ہے کہ انتخابات کی تاریخ کون دے گا۔ عرفان قادر نے کہا صدر حکومت کی سفارش کے بغیر کچھ نہیں کر سکتا۔ کیا صدر الیکشن کی تاریخ ایڈوائس کے بغیر دے سکتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ عدالت آئین اور قانون کے مطابق انصاف کے لیے بیٹھی ہے۔ سیاسی مقدمات میں سیاسی ایجنڈا سامنے آتا ہے۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتحابات سے متعلق آئینی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا۔
سپریم کورٹ نے اعلان کیا کہ عدالت محفوظ فیصلہ منگل کو سنائے گی۔
خیال رہے کہ الیکشن التوا کیس کی سماعت کرنے والا سپریم کورٹ کا بینچ دو مرتبہ تحلیل ہونے کے بعد اب تین رکنی بینچ اس معاملے کی سماعت کر رہا ہے۔
حکمراں اتحاد کا مطالبہ ہے کہ دونوں صوبوں میں انتخابات میں تاخیر کےمعاملے کی سماعت سپریم کورٹ کا فل بینچ کرے تاکہ اجتماعی سوچ سامنے آ سکے۔
اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے علی فرقان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن)کی پارلیمانی پارٹی کا اہم اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں طلب کر رکھا ہے۔
پیر کو دوپہر ایک بجے ہونے والے اجلاس میں وزیرِ اعظم ارکان پارلیمنٹ سے آرا لیں گے اور آئندہ کی حکمتِ عملی پر مشاورت بھی ہو گی۔
پارلیمانی پارٹی کے اجلاس کی صدارت کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف قومی اسمبلی کے اجلاس میں بھی شرکت کریں گے۔