رسائی کے لنکس

فیض آباد دھرنا کیس میں حکومتی کمیٹی مسترد؛ 'جاننا چاہتے ہیں اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا'


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیض آباد دھرنا کیس میں حکومت کی جانب سے بنائی گئی فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی مسترد کردی۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا ہے کہ جاننا چاہتے ہیں کہ فیض آباد دھرنے کا اصل ماسٹر مائنڈ کون تھا۔

اسلام آباد سے وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں تین رکنی بینچ فیض آباد دھرنا نظرِ ثانی کیس کی سماعت کر رہا ہے۔ جسٹس امین الدین خان اور جسٹس اطہر من اللہ بھی بینچ کا حصہ ہیں۔

سماعت کے آغاز پر جسٹس اطہر من اللہ نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ فیکٹ فائنڈنگ کمیٹی کس نے قائم کی اور کیا یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کی گئی تھی۔ جس پر اٹارنی جنرل نے عدالت کو بتایا کہ وفاقی حکومت نے کمیٹی قائم کی تھی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دیے کہ اگر یہ کمیٹی انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم نہیں کی گئی تو یہ غیر قانونی ہے اور اس کی تشکیل کا اعلامیہ کاغذ کا ٹکڑا ہے۔

چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے کہا کہ انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت قائم کمیشن سے سب ادارے تعاون کے پابند ہوتے ہیں لیکن آپ کی بنائی گئی کمیٹی کے سامنے تو کوئی پیش نہیں ہو گا۔

اٹارنی جنرل نے انکوائری کمیشن ایکٹ کے تحت تحقیقات پر حکومت سے مشاورت کے لئے مہلت مانگ لی جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ اب یہ نہیں ہو سکتا کہ آپ کہیں ہم مہینے بعد بتائیں گے۔

اٹارنی جنرل نے مؤقف اختیار کیا کہ وہ انکوائری کمیشن ایکٹ پر حکومت کو مشورہ دیں گے اور شاید پرسوں تک عدالت کو آگاہ کر دیں گے۔

فیض آباد دھرنا کیس کیا تھا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:19 0:00

واضح رہے کہ نومبر 2017 میں اسلام آباد اور راولپنڈی کے جنکشن فیض آباد کے مقام پر تحریکِ لبیک پاکستان (ٹی ایل پی) کے دھرنے پر لیے گئے ازخود نوٹس کیس کو سپریم کورٹ نے 2019 میں نمٹا دیا تھا اور حکومت، قانون نافذ کرنے والے اداروں، انٹیلی جنس ایجنسیوں اور فوج کے شعبۂ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کو ہدایت کی تھی کہ وہ اپنے دائرۂ اختیار میں رہتے ہوئے کام کریں۔

فیض آباد دھرنے کی وجہ قومی اسمبلی کی جانب سے انتخابی امیدواروں کے حلف نامے میں تبدیلی بنی تھی۔ اس وقت کی مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے انتخابی امیدواروں کے حلف نامے میں نامزدگی سے متعلق نئے فارم میں لفظ اوتھ یعنی حلف کو 'ڈکلیئر' کے لفظ سے تبدیل کیا تھا۔اس تبدیلی کے خلاف ٹی ایل پی نے 22 روز تک فیض آباد کے مقام کو بند رکھا تھا۔

بعدازاں فوج کی ثالثی سے ایک معاہدے کے تحت اُس وقت کے وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی نے وفاقی وزیرِ قانون زاہد حامد سے استعفیٰ لے لیا تھا۔ اس معاہدے پر ملک کی طاقت ور خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے اس وقت کے ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) میجر جنرل فیض حمید کے دستخط موجود تھے۔

فیض آباد دھرنا کیس سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کے خلاف وفاقی حکومت، الیکشن کمیشن، پیمرا، تحریکِ انصاف، متحدہ قومی موومنٹ، عوامی مسلم لیگ سمیت نو فریقین نے نظرِثانی کی درخواستیں دائر کی تھیں۔

تاہم چار سال کے وقفے کے بعد جب رواں برس 28 ستمبر کو پہلی سماعت ہوئی تو بیشتر درخواست گزاروں نے اپنی درخواست واپس لینے کی استدعا کی۔

XS
SM
MD
LG