بحر ہند میں تلاش کے عملے کو زیر آب سگنلنز موصول ہو ئے ہیں جن کے بارے میں ان کا خیال ہے کہ وہ ملائیشیا کے لاپتا مسافر طیارے کے بلیک باکس کے ہوسکتے ہیں۔
تلاش کی سرگرمیوں کے آسٹریلوی سربراہ اینگس ہیوسٹن نے کہا کہ ان سگنلز کی نشاندہی امریکی بحری جہاز پر نصب تشخیصی آلے نے منگل کو دو مختلف اوقات میں کی تھی۔
ہیوسٹن نے کہا کہ "گزشتہ روز موصول ہونے والے سگنلز کی مدد سے سمندر میں تلاش کے لیے ایک محدود علاقے کا تعین کرنے میں مدد ملے گی جہاں بہتر طریقے سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں ہم صحیح علاقے میں تلاش کر رہے ہیں لیکن ہم جب تک طیارے کے ملبے کو اپنی آنکھوں سے نا دیکھ لیں ہم یہ حتمی تصد یق نہیں کر سکتے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں طیارہ گرا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ مزید سگنلز کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تلاش کے لیے ایک متعین علاقے کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ ایک خود کار آبدوز کے ذریعے سمندر کی تہ میں تلاش کا عمل شروع کیا جا سکے۔
عہدیداروں کے پاس اب وقت کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بلیک باکس کی نشاندہی کے لئے سگنل کا اخراج کرنے والے آلے کی بیٹری صرف تیس دن تک کام کر سکتی ہے۔
ملایشیا کو بوئینگ طیارہ آٹھ مارچ کو کوالالمپور سے عملے سمیت 239 افراد کو لے کر بیجنگ کے لیے روانہ ہوا لیکن پرواز سے ایک گھنٹہ بعد ہی لاپتا ہوگیا۔ طیارے کو لاپتہ ہوئے اب ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔
آسٹریلوی بحر ی جہاز "اوشین شیلڈ" جس پر سگنلز کو موصول کرنا والا آلہ نصب ہے، نے سب سے پہلے ہفتہ اور اتوار کو سگنل موصول کیے تھے جس کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلا سگنل منگل کی دوپہر کو موصول ہوا اور اس کا دورانیہ پانچ منٹ تھا اور منگل کو ہی دیر گیے دوسرا سگنل موصول ہوا جس کا دورانیہ سات منٹ تھا۔
انہوں نے کہا کہ 33.331 کلوہرٹز پر موصول ہونے والے سگنلز بلیک باکس سے خارج ہونے والے متوقع سگنلز سے مطابقت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تلاش کے عملے کی "خوش قسمتی" ہے کہ انہوں نے اس کے باوجود کہ طیارے کو گم ہوئے تیس دن سے زائد کا عرصہ گزر گئے انہوں نے سگنلز کی نشاندہی کی ہے۔
ہیوسٹن نے کہا کہ اگر انہیں مزید سگنل موصول ہوئے تو انہیں امید ہے کہ انہوں "دنوں" میں ایسا کچھ مل سکتا ہے جس کے سبب وہ طیارے کی"حتمی جگہ "کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
بلیک باکس کے مل جانے کے بعد حکام یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ طیارے کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔
طیارہ کوئی ہنگامی پیغام نشر کیے بغیر ہی لاپتا ہو گیا تھا اور ابھی تک حکام طیارے کی ہائی جیکنگ، تخریب کاری اور فنی خرابی کے امکان کو رد نہیں کر رہے۔
تلاش کی سرگرمیوں کے آسٹریلوی سربراہ اینگس ہیوسٹن نے کہا کہ ان سگنلز کی نشاندہی امریکی بحری جہاز پر نصب تشخیصی آلے نے منگل کو دو مختلف اوقات میں کی تھی۔
ہیوسٹن نے کہا کہ "گزشتہ روز موصول ہونے والے سگنلز کی مدد سے سمندر میں تلاش کے لیے ایک محدود علاقے کا تعین کرنے میں مدد ملے گی جہاں بہتر طریقے سے تلاش کی جا سکتی ہے۔ میرے خیال میں ہم صحیح علاقے میں تلاش کر رہے ہیں لیکن ہم جب تک طیارے کے ملبے کو اپنی آنکھوں سے نا دیکھ لیں ہم یہ حتمی تصد یق نہیں کر سکتے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں طیارہ گرا تھا"۔
انہوں نے کہا کہ مزید سگنلز کی نشاندہی کے ساتھ ساتھ تلاش کے لیے ایک متعین علاقے کی نشاندہی ضروری ہے تاکہ ایک خود کار آبدوز کے ذریعے سمندر کی تہ میں تلاش کا عمل شروع کیا جا سکے۔
عہدیداروں کے پاس اب وقت کم ہوتا جا رہا ہے کیونکہ بلیک باکس کی نشاندہی کے لئے سگنل کا اخراج کرنے والے آلے کی بیٹری صرف تیس دن تک کام کر سکتی ہے۔
ملایشیا کو بوئینگ طیارہ آٹھ مارچ کو کوالالمپور سے عملے سمیت 239 افراد کو لے کر بیجنگ کے لیے روانہ ہوا لیکن پرواز سے ایک گھنٹہ بعد ہی لاپتا ہوگیا۔ طیارے کو لاپتہ ہوئے اب ایک ماہ سے زائد کا عرصہ ہو گیا ہے۔
آسٹریلوی بحر ی جہاز "اوشین شیلڈ" جس پر سگنلز کو موصول کرنا والا آلہ نصب ہے، نے سب سے پہلے ہفتہ اور اتوار کو سگنل موصول کیے تھے جس کے بعد ان سے رابطہ منقطع ہو گیا تھا۔
انہوں نے کہا کہ پہلا سگنل منگل کی دوپہر کو موصول ہوا اور اس کا دورانیہ پانچ منٹ تھا اور منگل کو ہی دیر گیے دوسرا سگنل موصول ہوا جس کا دورانیہ سات منٹ تھا۔
انہوں نے کہا کہ 33.331 کلوہرٹز پر موصول ہونے والے سگنلز بلیک باکس سے خارج ہونے والے متوقع سگنلز سے مطابقت رکھتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ تلاش کے عملے کی "خوش قسمتی" ہے کہ انہوں نے اس کے باوجود کہ طیارے کو گم ہوئے تیس دن سے زائد کا عرصہ گزر گئے انہوں نے سگنلز کی نشاندہی کی ہے۔
ہیوسٹن نے کہا کہ اگر انہیں مزید سگنل موصول ہوئے تو انہیں امید ہے کہ انہوں "دنوں" میں ایسا کچھ مل سکتا ہے جس کے سبب وہ طیارے کی"حتمی جگہ "کی تصدیق کر سکتے ہیں۔
بلیک باکس کے مل جانے کے بعد حکام یہ معلوم کر سکتے ہیں کہ طیارے کے ساتھ کیا واقعہ پیش آیا۔
طیارہ کوئی ہنگامی پیغام نشر کیے بغیر ہی لاپتا ہو گیا تھا اور ابھی تک حکام طیارے کی ہائی جیکنگ، تخریب کاری اور فنی خرابی کے امکان کو رد نہیں کر رہے۔