کراچی میں ٹارگٹ کلنگ گزشتہ کئی برسوں سے جاری ہے اور موجودہ دورِ حکومت کے ہر گزرتے سال کے ساتھ ہدف بنا کر قتل کی ان وارداتوں میں اضافہ ہورہا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس ٹارگٹ کلنگ کا بنیادی سبب شہر اور اس کے وسائل پر قبضے کےلیے برسرِ پیکار مختلف سیاسی گروہوں کی باہم چپقلش، بھتہ، لینڈ مافیا، جرائم پیشہ گروہوں کی گھٹتی بڑھتی سرگرمیوں اور اسٹریٹ کرائم کی روز افزوں وارداتیں ہیں۔
لیکن شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں گزشتہ چند ماہ کے دوران میں فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل کا عنصر بھی در آیا ہے جس نے شہر کی پہلے سے کشیدہ فضا اور نسلی و سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔
جمعے کو بھی شہر میں مزید چھ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جن میں سے تین کو شہر کے علاقے گلشنِ اقبال میں نامعلوم ملزمان نے اس وقت ہدف بنا کر قتل کردیا جب وہ ایک جلسے سے واپس لوٹ رہے تھے۔
مذہبی سیاسی تنظیم 'اہلسنت و الجماعت' کے ترجمان کے مطابق تینوں مقتولین ان کے کارکن تھے اور انہیں عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی میں شیعہ اور سنی کی تفریق کی بنیاد پر گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں قتل اور دہشت گردی کی کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔ لیکن سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں فرقہ واریت پھیلانے میں ملوث جماعتوں پر پابندی اور ان کے کارکنان کے خلاف آپریشن کے بعد اس میں خاصی کمی آگئی تھی۔
گوکہ مذہب کی بنیاد پر شہر میں قتل کی اکا دکا وارداتیں اس کے بعد بھی ہوتی رہی ہیں لیکن حالیہ چند ماہ، خصوصاً رمضان کے آخری ایام سے ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے پرتشدد واقعات میں رواں برس اب تک 1800 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ صرف اکتوبر کے ابتدائی 18 دنوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150 کے لگ بھگ ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اکتوبر میں ہلاک ہونے والے 150 میں سے کم از کم 15 سے 20 افراد کے قتل میں فرقہ واریت کا عنصر شامل تھا اور ان میں سے بیشتر کا تعلق سنی دیو بند عقیدے کی جماعت 'اہلسنت و الجماعت' اور کراچی میں شیعہ مکتبِ فکر کی نمائندہ 'مجلس وحدت المسلمین' سے تھا۔
'اہلسنت و الجماعت ' کے ترجمان قاری اکبر سعید کے مطابق رواں ماہ اب تک ان کی جماعت کے 11 کارکنان کو ہدف بنا کر قتل کیا جاچکا ہے۔
'مجلسِ وحدت المسلمین' کے ترجمان علی احمر کا دعویٰ ہے کہ رواں ماہ اب تک ان کے نو کارکنان قتل کیے جاچکے ہیں جب کہ ان کے بقول گزشتہ ماہ ستمبر میں شہر میں شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے 38 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
سندھ کے محکمہ داخلہ کے مشیر شرف الدین میمن کہتے ہیں کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران میں پاکستان کے کئی علاقوں، خصوصاً کوئٹہ، گلگت اور کرم ایجنسی میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی میں ہونے والی وارداتوں کو ان علاقوں سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر درحقیقت شہر میں شیعہ سنی تصادم کرانے کی ایک سازش ہے لیکن علماء اور عوام اس سازش کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔
شرف الدین میمن کے بقول کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں معاشرے کے ہر طبقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے لہذا اسے فرقہ ورانہ رنگ دینا ٹھیک نہیں۔ ان کے بقول فرقہ ورانہ قتل و غارت میں بھی وہی لوگ ملوث ہیں جو شہر میں لسانی اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کےلیے حکومتی اقدامات سے متعلق سوال پر محکمہ داخلہ کے مشیر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث 200 سے زائد دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ قوانین میں موجود سقم اور مناسب تفتیش نہ ہونے کے باعث استغاثہ کو عدالتوں سے ملزمان کو سزادلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس ٹارگٹ کلنگ کا بنیادی سبب شہر اور اس کے وسائل پر قبضے کےلیے برسرِ پیکار مختلف سیاسی گروہوں کی باہم چپقلش، بھتہ، لینڈ مافیا، جرائم پیشہ گروہوں کی گھٹتی بڑھتی سرگرمیوں اور اسٹریٹ کرائم کی روز افزوں وارداتیں ہیں۔
لیکن شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں گزشتہ چند ماہ کے دوران میں فرقہ واریت کی بنیاد پر قتل کا عنصر بھی در آیا ہے جس نے شہر کی پہلے سے کشیدہ فضا اور نسلی و سیاسی تقسیم کو مزید گہرا کردیا ہے۔
جمعے کو بھی شہر میں مزید چھ افراد ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنے جن میں سے تین کو شہر کے علاقے گلشنِ اقبال میں نامعلوم ملزمان نے اس وقت ہدف بنا کر قتل کردیا جب وہ ایک جلسے سے واپس لوٹ رہے تھے۔
مذہبی سیاسی تنظیم 'اہلسنت و الجماعت' کے ترجمان کے مطابق تینوں مقتولین ان کے کارکن تھے اور انہیں عقیدے کی بنیاد پر نشانہ بنایا گیا ہے۔
یاد رہے کہ کراچی میں شیعہ اور سنی کی تفریق کی بنیاد پر گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں قتل اور دہشت گردی کی کئی وارداتیں ہوئی تھیں۔ لیکن سابق فوجی صدر پرویز مشرف کے دور میں فرقہ واریت پھیلانے میں ملوث جماعتوں پر پابندی اور ان کے کارکنان کے خلاف آپریشن کے بعد اس میں خاصی کمی آگئی تھی۔
کراچی میں شیعہ اور سنی کی تفریق کی بنیاد پر گزشتہ صدی کی آخری دہائی میں قتل اور دہشت گردی کی کئی وارداتیں ہوئی تھیں
گوکہ مذہب کی بنیاد پر شہر میں قتل کی اکا دکا وارداتیں اس کے بعد بھی ہوتی رہی ہیں لیکن حالیہ چند ماہ، خصوصاً رمضان کے آخری ایام سے ان کی تعداد میں نمایاں اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق کراچی کے پرتشدد واقعات میں رواں برس اب تک 1800 سے زائد افراد ہلاک ہوئے ہیں جب کہ صرف اکتوبر کے ابتدائی 18 دنوں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 150 کے لگ بھگ ہے۔
پولیس ذرائع کے مطابق اکتوبر میں ہلاک ہونے والے 150 میں سے کم از کم 15 سے 20 افراد کے قتل میں فرقہ واریت کا عنصر شامل تھا اور ان میں سے بیشتر کا تعلق سنی دیو بند عقیدے کی جماعت 'اہلسنت و الجماعت' اور کراچی میں شیعہ مکتبِ فکر کی نمائندہ 'مجلس وحدت المسلمین' سے تھا۔
'اہلسنت و الجماعت ' کے ترجمان قاری اکبر سعید کے مطابق رواں ماہ اب تک ان کی جماعت کے 11 کارکنان کو ہدف بنا کر قتل کیا جاچکا ہے۔
'مجلسِ وحدت المسلمین' کے ترجمان علی احمر کا دعویٰ ہے کہ رواں ماہ اب تک ان کے نو کارکنان قتل کیے جاچکے ہیں جب کہ ان کے بقول گزشتہ ماہ ستمبر میں شہر میں شیعہ عقیدے سے تعلق رکھنے والے 38 افراد کو نشانہ بنایا گیا تھا۔
سندھ کے محکمہ داخلہ کے مشیر شرف الدین میمن کہتے ہیں کہ حالیہ کچھ عرصے کے دوران میں پاکستان کے کئی علاقوں، خصوصاً کوئٹہ، گلگت اور کرم ایجنسی میں فرقہ ورانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ میں اضافہ ہوا ہے اور کراچی میں ہونے والی وارداتوں کو ان علاقوں سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتا۔
"کراچی میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ کو کوئٹہ، گلگت اور کرم ایجنسی کے واقعات سے علیحدہ کرکے نہیں دیکھا جاسکتاشرف الدین میمن، مشیر محکمہ داخلہ سندھ
'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ فرقہ ورانہ بنیادوں پر ٹارگٹ کلنگ کی حالیہ لہر درحقیقت شہر میں شیعہ سنی تصادم کرانے کی ایک سازش ہے لیکن علماء اور عوام اس سازش کو بخوبی سمجھ رہے ہیں۔
شرف الدین میمن کے بقول کراچی کی ٹارگٹ کلنگ میں معاشرے کے ہر طبقے کو نشانہ بنایا جارہا ہے لہذا اسے فرقہ ورانہ رنگ دینا ٹھیک نہیں۔ ان کے بقول فرقہ ورانہ قتل و غارت میں بھی وہی لوگ ملوث ہیں جو شہر میں لسانی اور سیاسی بنیادوں پر لوگوں کو ہدف بنا رہے ہیں۔
ٹارگٹ کلنگ کو روکنے کےلیے حکومتی اقدامات سے متعلق سوال پر محکمہ داخلہ کے مشیر کا کہنا تھا کہ ان کی حکومت نے ٹارگٹ کلنگ میں ملوث 200 سے زائد دہشت گردوں کو گرفتار کیا گیا ہے لیکن انہوں نے اعتراف کیا کہ قوانین میں موجود سقم اور مناسب تفتیش نہ ہونے کے باعث استغاثہ کو عدالتوں سے ملزمان کو سزادلانے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔