رسائی کے لنکس

’تلور کے شکار کی اجازت مقامی فلاح و بہبود سے مشروط ہونی چاہیے‘


فائل فوٹو
فائل فوٹو

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ جہاں مقامی لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں معدوم ہوتے ہوئے پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدام اٹھانا بھی اہم ہے۔

پاکستان میں ہر سال موسم سرما میں عرب اور خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندان کے افراد تلور کے شکار کی غرض سے ملک کے جنوبی مغربی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

واضح رہے کہ موسم سرما میں بڑی تعداد میں پرندے پاکستان کا رخ کرتے ہیں اور انہیں میں تلور بھی شامل ہیں۔

تلور تیزی سے ناپید ہونے والے پرندوں میں شامل ہے اور اسی وجہ سے پاکستان آنے والے عرب مہمانوں کو اس پرندے کے شکار کی اجازت دینے کے حکومتی فیصلے پر نا صرف تنقید کی جاتی رہی ہے بلکہ جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم تنظمیوں کی طرف سے بھی اس اجازت کو ختم کرنے مطالبات سامنے آتے رہتے ہیں۔

تاہم رواں ہفتے پاکستان کی پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی ایک کمیٹی میں بھی اس معاملے کو اٹھاتے ہوئے تجویز دی گئی کہ پاکستان میں تلور کے شکار کے لیے آنے والے عرب شہزادوں اور امرا سے کہا جائے وہ شکار کے علاقوں میں مقامی آبادی کو صاف پانی اورصحت کی سہولتوں کے فراہمی منصوبوں میں معاونت فراہم کریں۔

سینٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ماحولیاتی تبدیلی کے رکن اور پاکستان کی حکمران جماعت کے سینیٹر سلیم ضیا نے وائس امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ ایک تجویز دی گئی ہے کہ وہ مقامی لوگوں کے لیے بہتری کی طرف توجہ دیں لیکن ان پر کسی قسم کی پابندی یا قدغن نہیں لگائی گئی ہے۔"

جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن ناصر اقبال کا کہنا ہے کہ جہاں مقامی لوگوں کی فلاح کے لیے کام کرنے کی ضرورت ہے وہیں معدوم ہوتے ہوئے پرندوں اور دیگر جنگلی حیات کے تحفظ کے لیے اقدام اٹھانا بھی اہم ہے۔

" ہماری قدرتی ماحول کے لیے یہ نایاب پرندے اور دیگر جنگلی حیات وہ بہت زیادہ اہم ہیں اور جتنی موسمیاتی تبدیلی آپ دیکھ رہے ہیں اسی کی وجہ سے قدرتی ماحول متاثر ہورہا ہے۔"

انہوں نے کہا کہ قدرتی ماحول کے تحفظ کی اہمیت سے متعلق عوام میں بھی شعور و آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔

" عام لوگوں کو اس بات کا علم نہیں ہوتا ہے کہ یہ ہمارے لیے ، ہماری زراعت کے لیے، ہماری قدرتی ماحول کے لیے یہ چیزیں (جنگلی حیات) کتنی اہم ہیں۔"

ہر سال موسم سرما میں ہزارو ں کی تعداد میں پرندے وسط ایشیا سے پاکستان ہجرت کرتے ہیں۔ جنگلی حیات کے لیے تحفظ کے لیے کام کرنے والے تنظیموں کا کہنا ہے کہ منظم انداز میں ان پرندوں کے شکار کی اجازت دینے میں کوئی حرج نہیں ہے لیکن یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ بغیر کسی پانبدی کے ان کے شکار کے جاری رکھنے سے پرندوں کی بعض اقسام بالکل نا پید ہو سکتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG