انسانی حقوق سے متعلق پارلیمان کے ایوان بالا یعنی سینیٹ کی کمیٹی نے ملک میں خواجہ سراؤں کے حقوق کے تحفظ سے متعلق ایک مسودہ قانون کی منظوری دی ہے۔
اس مجوزہ بل کو بعض ترامیم کے ساتھ کمیٹی نے منظور کر لیا ہے جس میں خواجہ سرا کی شناخت کا تعین کرنا اور انہیں علاج اور دیگر سہولتیں فراہم کرنے کے اقدامات بھی تجویز کیے گئے ہیں۔
سینیٹر نسرین جلیل کی سربراہی میں ہونے والے کمیٹی کے اجلاس میں اس بل کی منطوری دیتے ہوئے اس بات پر اتفاق کیا گیا کہ اسے حتمی منظوری کے لیے جلد سینیٹ میں پیش کیا جائے گا۔
سینیٹ کی کمیٹی کی طرف سے خواجہ سراؤں سے متعلق منظور کیے جانے والے مجوزہ بل کا مقصد خواجہ سرا کی تعریف، ان کے خلاف امتیازی سلوک کا تدارک اور بطور خواجہ سرا ان کے بنیادی حقوق کے تحفظ کو یقنی بنانا شامل ہے۔
اس بل میں خواجہ سراؤں کے لیے روزگار و تعلیم اور دیگر سہولتوں کی فراہمی کے لیے بھی اقدامات تجویز کیے گئے ہیں۔
خواجہ سرا برادری کے سرگرم کارکن ندیم کشش نے کہا کہ حال ہی میں بعض خواجہ سراؤں کو ایسے پاسپورٹ جاری کیے گئے جن میں ان کی جنس کو انگریزی حرف 'X' (ایکس) سے ظاہر کیا گیا ہے انہوں نے کہا اگرچہ یہ اچھا اقدام تھا اور بعض دیگر ملکوں میں بھی خواجہ سراؤں کی شناخت دستاویز میں 'ایکس' ہی درج کیا جاتا ہے تاہم انہوں نے کہا کہ اس کی وجہ خواجہ سراؤں کو سفری اور سماجی مشکلات بھی درپیش ہیں جن کا تدارک ضروری ہے۔
سینیٹ کی کمیٹی کو بتایا گیا کہ اس بل میں اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات کو بھی شامل کیا گیا ہے خاص طور پر خواجہ سراؤں کا وراثت میں حق کا تعلق ہے۔
خواجہ سرا برادری کا شمار ملک کے سب سے محروم طبقات میں ہوتا ہے ان کے خلاف روا رکھے جانے والے امیتازی سماجی رویوں کے باعث خواجہ سراؤں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے والے سرگرم کارکن اس برادری کے لیے الگ شناخت کا مطالبہ کرتے رہے ہیں۔
اگرچہ حالیہ برسوں میں حکومت نے ان کی بہتری کے لیے کئی اقدامات کیے ہیں تاہم خواجہ سراؤں کا کہنا ہے اب بھی بہت کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔
رواں سال پاکستان میں ہونے والی ملک کی چھٹی مردم شماری میں بھی خواجہ سرا برادری کو پہلی بار بطور تیسری جنس کے طور پر شمار کیا گیا ہے۔