اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے، پاکستانی سماجی میڈیا کی راہ میں درپیش مشکلات پر نہ صرف انسانی حقوق کی تنظیموں اور انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کے سرگرم کارکن آواز بلند کرتے ہیں، بلکہ اب بعض قانون سازوں نے بھی سائبر کرائمز کی روک تھام سے متعلق قانون کے مبینہ غلط استعمال پر تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
پارلیمان کے ایوانِ بالا یعنی سینٹ میں بدھ کو الیکٹرانک کرائمز کی روک تھام سے متعلق قانون کے مبینہ غلط استعمال کے معاملے پر ہونے والی بحث میں حصہ لیتے ہوئے بعض قانون سازوں کا کہنا تھا کہ شہریوں کو تحفظ فراہم کرنے کی بجائے یہ قانون شہریوں کو آزادی اظہار رائے سے محروم کرنے کا سبب بن رہا ہے۔ دوسری جانب، کئی کالعدم شدت پسند تنظمیں آزادی سے سماجی میڈیا کا استعمال جاری رکھے ہوئے ہیں۔
حزب مخالف کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کی سینیٹر سحر کامران نے جمعرات کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا ہے کہ حکومت نے ایوان بالا میں بتایا ہے کہ ملک میں کالعدم قرار دی گئی 64 شدت پسند تنظیموں میں سے 41 ایسی ہیں جو سماجی میڈیا پر اب بھی سرگرم ہیں۔
سحر کامران کا کہنا تھا کہ یہ صورت حال، ’’اس لیے بھی تشویشناک ہے کہ اس قانون کے تحت ان افراد کو نشانہ بنایا گیا ہے جو حکومت کی پالیسوں کی خلاف آواز بلند کرتے ہیں۔‘‘
بقول اُن کے، "جہاں پر ایک شخص یہ خوف محسوس کرے کہ میں اپنی رائے کا اظہار کر سکتا ہوں یا نہیں، تو یہ آزادی رائے کے حق کی خلاف ورزی ہے۔"
انہوں نے کہا کہ جب سائبر کرائمز کی روک تھام کے لیے قانون وضح کیا جارہا تھا تو اس وقت بھی انہیں یہ خدشہ تھا کہ حکومت اس قانون کا غلط استعمال کر سکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ "جب یہ بل پیش ہو رہا تھا، اس کے بارے میں ہمیں تحفظات تھے اور تب بھی ہمیں یہ خدشات تھے کہ حکومت اس بل کو ذاتی مفاد اور مخصوص مقاصد کے لیے استعمال کرے گی اور ایسے واقعات بھی دیکھنے میں آئے ہیں۔ حزب اختلاف کا کردار یہ ہے وہ اس بات پر نظر رکھے اور ہم اپنا یہ کردار ادا کرتے رہیں گے"۔
سحر کامران نے کہا کہ حکومت نے رواں سال مئی میں پارلیمان کو بتایا تھا کہ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد سے لے کر اب تک، وفاقی تحقیقاتی ادارے ' ایف آئی اے'کا سائبر کرائم ونگ تقریباً 900 افراد کے خلاف مقدمات درج کر چکا ہے۔
حکومت میں شامل عہدیداروں کا موقف ہے کہ حکومت آزادی اظہار پر کسی طرح کی قدغن کی خواہاں نہیں۔ تاہم، حکام کا کہنا ہے کہ آزادی اظہار کی آڑ میں قومی مفادات کو نقصان پہنچانے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
حالیہ مہینوں میں حکام نے ایسے متعدد افرد کے خلاف کارروائی کی ہے جو مبینہ طور سماجی میڈیا پر نفرت انگیز اور توہین آمیز پوسٹ کے ذمہ دار بتائے جاتے ہیں۔