قطر کے دارالحکومت دوحا میں قائم افغان طالبان کے سیاسی دفتر کے سربراہ محمد طیب آغا نے اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا ہے اور یوں بظاہر ملا اختر منصور کی بطور طالبان کے نئے امیر کی تقرری پر آپسی اختلافات مزید بڑھتے نظر آتے ہیں۔
محمد طیب آغا نے منگل کو سیاسی دفتر کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دیتے ہوئے کہا کہ "انفرادی تحفظات کی بنا پر" ملا عمر کے انتقال کی خبر کو چھپانا ایک "تاریخی غلطی تھی"۔
ایک بیان میں ان کا کہنا تھا کہ "اب، جب کہ ملک سے باہر نئے رہنما کا انتخاب ہو چکا ہے اور ایسے لوگوں کی طرف سے جو کہ ملک سے باہر ہیں، یہ بھی ایک عظیم تاریخی غلطی تصور کی جاتی ہے۔"
محمد طیب آغا کا اشارہ بظاہر اُن خبروں کی طرف تھا جن میں یہ کہا جاتا رہا ہے کہ ملا اختر منصور کا انتخاب پاکستان کے صوبہ بلوچستان موجود ’کوئٹہ شوریٰ‘ نے کیا۔
لیکن افغان طالبان کے ترجمان کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جاتا رہا ہے کہ طالبان کی مرکزی شوریٰ ہی نے ملا اختر منصور کو تحریک کا سربراہ مقرر کیا ہے۔
طیب آغا کا کہنا تھا کہ سویت یونین کے حملے کے وقت سے ملک کے باہر سے منتخب ہونے والی قیادت "بہت برے مضمرات" کا باعث بن چکی ہے۔
انھوں نے زور دے کر کہا کہ قائد کا انتخاب "ملک میں اپنے مضبوط حلقوں میں باہمت مجاہدین کی موجودگی میں کیا جانا چاہیئے۔"
طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد کا کہنا ہے کہ وہ فی الوقت یہ تصدیق نہیں کر سکتے ہیں کہ یہ بیان طیب آغا کی طرف سے جاری کیا گیا۔
اُدھر افغان طالبان نے ایک بیان میں اپنے حامیوں پر زور دیا کہ وہ تنظیم میں اختلافات سے متعلق ’دشمن کے پروپیگنڈے‘ پر توجہ نا دیں اور طالبان کی نئی قیادت کے پیچھے متحد ہو جائیں۔
افغان طالبان کے ترجمان ذبیع اللہ مجاہد نے اپنے حامیوں سے کہا کہ وہ تنظیم میں اتحاد کو ظاہر کرنے کے لیے سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر پیغامات لکھیں۔
ملاعمر کے رشتہ داروں خاص طور پر اُن کے بھائی ملا منان اور بیٹے ملا یعقوب نے یہ مطالبہ کیا ہے کہ افغان طالبان کے سربراہ کے انتخاب کا عمل دوبارہ کیا جائے۔
پاکستانی کی قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے اُمور خارجہ کے رکن رانا محمد افضل نے کہا کہ افغان طالبان میں اختلافات امن مذاکرات کے عمل میں مشکلات پیدا کر سکتے ہیں۔
’’اگر اُن (طالبان) میں اتحاد ہو تو آپ کسی فیصلے پر پہنچ سکتے ہیں۔ لیکن یہ ممکن نہیں کہ دو افغانستان کے گروپ بیٹھے ہوں اور ایک گروپ افغانستان حکومت کا ہو تو یہ تھوڑا سا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‘
پاکستان کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی جماعت جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا ہے کہ بظاہر تو یہ لگتا ہے کہ افغان طالبان کی نئی قیادت بات چیت کرنا چاہتی ہے۔
دوحا میں طالبان کا سیاسی دفتر کھولنے کا مقصد افغانستان میں امن و مصالحت کے لیے مذاکرات کے عمل میں شرکت کرنا ہی تھی۔ لیکن اطلاعات کے مطابق گزشتہ ماہ ملا منصور نے اپنے نمائندوں کو افغان حکومت سے بات چیت کے لیے بھیجا تھا جس پر قطر دفتر کو اعتراضات تھے۔
مذاکرات کا پہلا دور سات جولائی کو پاکستان کی میزبانی میں سیاحتی مقام مری میں ہوا تھا جو کہ طالبان اور افغان حکومت کے نمائندوں کے درمیان پہلی براہ راست ملاقات تھی۔ مذاکرات کا دوسرا دور گزشتہ ماہ کے اواخر میں طے تھا لیکن ملا عمر کے انتقال کی خبر آنے کے بعد اسے موخر کر دیا گیا۔
باور کیا جاتا ہے کہ ملا منصور پاکستان سے قربت رکھتے ہیں اور انھیں طالبان تحریک کو منظم رکھنے میں دشواری پیش آ سکتی ہے۔ کیونکہ ان کے انتخاب کے اعلان کے بعد بعض طالبان دھڑوں بشمول ملا عمر کے بھائی اور بیٹے کی طرف سے اس کی مخالفت سامنے آچکی ہے۔