پاکستان کے وزیر داخلہ رحمٰن ملک نے انکشاف کیا ہے کہ تقریباً دو ماہ قبل لاہور سے اغواء ہونے والی اہم کاروباری شخصیت شہباز تاثیر زندہ اور افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں کسی نامعلوم مقام پر اغواء کاروں کی قید میں ہیں۔
پیر کو اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے اُنھوں نے اس بارے میں مزید کوئی معلومات فراہم نہیں کیں البتہ ان کا کہنا تھا کہ اغواء کی ایسی وارداتوں میں کالعدم ٹی ٹی پی (تحریک طالبان پاکستان) ملوث ہے جو ان کارروائیوں کے ذریعے ’’اپنے مزموم مقاصد‘‘ حاصل کرنا چاہتی ہے۔
رحمٰن ملک نے مزید وضاحت کیے بغیر کہا کہ ’’حال ہی میں (میرے) ایک دوست کے اغواء شدہ بیٹے کی رہائی کے لیے تاوان کی رقم میرانشاہ کے قریب وصول کی گئی تھی۔‘‘
شہباز تاثیر پنجاب کے مقتول گورنر سلمان تاثیر کے بڑے بیٹے اور ان کے وسیع کاروبار کے نگران ہیں۔ انھیں 26 اگست کو لاہور کے رہائشی علاقے گلبرگ میں ان کے دفتر کے قریب سے نامعلوم افراد نے اغواء کر لیا تھا۔ لیکن تاحال اس واردات کے نا تو محرکات کے بارے میں کوئی تفصیلات منظر عام پر آئی ہیں اور نا ہی اغواء کاروں کے مطالبات۔
دریں اثنا وزیر داخلہ نے اپنی گفتگو میں اس بات کی بھی تصدیق کی ہے کہ ٹی ٹی پی سے تعلق رکھنے والے شدت پسندوں نے القاعدہ کی مدد سے حکمران پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کو اغواء کرنے کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔ اُنھوں نے کہا ہے کہ وزارت داخلہ نے حفظ ماتقدم کے طور پر متعلقہ سکیورٹی کے اداروں کو ضروری ہدایت جاری کر دی ہیں۔
’’دو ہفتے قبل ایک (خفیہ) ایجنسی نے ہمیں یہ خبر دی تھی کہ القاعدہ اور ٹی ٹی پی مل کر ہمارے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کو اغوا کر سکتے ہیں۔ جب یہ اطلاع آئی تو قانون نافذ کرنے والے تمام اداروں کو اس سے مطلع کر دیا گیا۔ بیرون اور اندروں ملک جتنے بھی (حفاظتی) اقدامات ضروری ہیں ہم لیں گے۔‘‘
وزیر داخلہ نے کہا کہ القاعدہ، تحریک طالبان پاکستان اور دیگر کالعدم تنظیمیں مل کر پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں اور بظاہر ان کا ہدف ملک کی سیاسی قیادت سمیت اہم شخصیات ہیں۔
بلاول بھٹو ان دنوں لندن میں زیر تعلیم ہیں۔ ان کی والدہ سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی دسمبر 2007ء میں قاتلانہ حملے میں ہلاکت کے بعد پیپلز پارٹی نے انھیں جماعت کا چیئرمین منتخب کیا تھا لیکن عملی سیاست میں ان کی بھر پور شمولیت تک پارٹی کی سربراہی شریک چیئرمین صدر آصف علی زرداری کے پاس ہے۔