پاکستان کی سیاست اور میڈیا کے کئی بڑے نام ماضی میں طلبہ تنظیموں کے رہنما رہ چکے ہیں۔ سابق فوجی صدر ضیاءالحق نے تعلیمی اداروں میں طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی تھی اور مبصرین اس اقدام کو سیاست کی نرسری ختم کرنے سے تعبیر کرتے ہیں۔
وائس آف امریکہ یہ جاننے کی کوشش کر رہا ہے کہ طلبہ سیاست سے پاکستان کو کیا ملا؟ پابندی سے فائدہ ہوا یا نقصان؟ اور ضیاءالحق کے بعد آنے والی حکومتوں نے اس پابندی کو ختم کیوں نہیں کیا۔
اس سلسلے میں این ایس ایف کے سابق رہنما، ڈرامہ نویس، اجوکا تھیٹر کے بانی اور سابق ایم ڈی پی ٹی وی شاہد محمود ندیم سے خصوصی گفتگو پیش کی جارہی ہے۔
سوال: آپ نے کالج میں داخلہ کب لیا اور اس وقت کون سی طلبہ تنظیمیں سرگرم تھیں؟
شاہد محمود ندیم: میں نے 1963 میں لاہور کے گورنمنٹ کالج میں داخلہ لیا۔ شروع میں ڈبیٹنگ سوسائٹی اور اسٹوڈنٹ یونین میں سرگرم رہا۔ لیکن آہستہ آہستہ سیاست میں بھی سرگرم ہوگیا اور نیشنل اسٹوڈنٹس فیڈریشن میں شمولیت اختیار کرلی جو بائیں بازو کی طلبہ تنظیم تھی۔ اس زمانے میں اسلامی جمعیت طلبہ اور جمعیت طلبائے اسلام بھی میدان میں تھے۔ کچھ عرصہ بعد پیپلز اسٹوڈنٹس فیڈریشن سامنے آئی۔ لیفٹ اور رائٹ کی تقسیم کافی واضح تھی۔ این ایس ایف کا ایک گروپ پرو چائنہ اور دوسرے گروپ کو پرو ماسکو کہا جاتا تھا۔ ان میں آپس میں کافی اختلافات تھے۔ سیاسی طور پر ایک 'چارجڈ' ماحول تھا۔ ایک نکتے پر سب متفق تھے کہ ڈکٹیٹر شپ اور 'اسٹیٹس کو' قبول نہیں۔ اس زمانے کی لیفٹ کی طلبہ تنظیمیں تھیں یا رائٹ کی، سب جنرل ایوب خان کی آمریت سے چھٹکارا چاہتی تھیں۔
سوال: آپ نے 1968 میں گریجویشن کے بعد پنجاب یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور آپ کے زمانہ طالب علمی میں پنجاب یونیورسٹی کی طلبہ یونین پر پابندی لگا دی گئی۔ اس پابندی کے خلاف آپ کا کیا کردار تھا؟
شاہد محمود ندیم: اس وقت نہ صرف ملک پر فیلڈ مارشل ایوب خان کا جابرانہ دور مسلط تھا بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں بھی پروفیسر حمید احمد خان کا سخت دور تھا۔ وہ ویسے تو دانشور اور انتہائی قابل احترام تھے لیکن ان کی انتظامیہ کا طریقہ ایوب خان والا ہی تھا۔ ان کے زمانے میں ہیڈز آف ڈیپارٹمنٹ کے ذریعے طلبہ کو کنٹرول کیا جاتا تھا۔ ایوب خان کے کہنے پر پنجاب یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسٹوڈنٹ یونین پر پابندی لگادی۔ وہ بہت بڑی یونین تھی جو لاہور کے علاوہ پورے پنجاب میں سرگرم تھی۔ وہ اپنے آپ کو بیان کرنے کا، انتخابات لڑنے کا، مختلف مکاتب فکر کو اجاگر کرنے کا اور طلبہ کی آواز کو انتظامیہ تک پہنچانے کا پلیٹ فارم تھا۔ یہ پابندی اس کے راستے میں دیوار بن گئی تھی۔
میں نے اور کچھ طلبا نے مل کر یونین کی بحالی کی تحریک چلائی۔ اس تحریک میں یونیورسٹی کی انتظامیہ اور ایوب خان حکومت کے ساتھ ہمارا ٹکراؤ ہوا۔ ہمیں جیلوں میں جانا پڑا اور عدالتوں میں ہمارے مقدمات چلے۔ اسی دور میں ذوالفقار علی بھٹو کا ظہور ہورہا تھا جنھوں نے ایوب خان کی کابینہ سے استعفی دے کر پیپلز پارٹی بنائی تھی۔ اس کے ذریعے وہ نوجوانوں کو متحرک کررہے تھے۔
اس کے ساتھ ہی 1968 میں ایک عالمگیر تحریک شروع ہوگئی جس میں امریکہ کے علاوہ جرمنی، فرانس اور برطانیہ کے طلبا بھی شامل تھے۔ ہمارے ایک سینئر طارق علی برطانیہ گئے ہوئے تھے جو وہاں طلبا تحریک میں سرگرم تھے اور ہم ان سے رہنمائی حاصل کرتے تھے۔ اس کے علاوہ مشرقی پاکستان کے طلبا ہم سے زیادہ منظم تھے۔ ہماری نسل کی وہ تحریک مشرقی پاکستان کے طلبا کے ساتھ آخری مشترکہ کوشش تھی جس کی وجہ سے ایوب خان کو مستعفی ہونا پڑا۔
سوال: آپ کے زمانے میں آپ کے ساتھ اور کون سے دیگر اہم طلبا رہنما سرگرم تھے؟
شاہد محمود ندیم: ہمارے ساتھ ترقی پسندوں کی طرف پرویز رشید، افتخار احمد، راجا انور، اعصام الحق، افراسیاب خٹک اور عارف کمال تھے۔ دوسری طرف حافظ ادریس کافی سرگرم تھے۔ فرید پراچہ اور لیاقت بلوچ اسلامی جمعیت طلبا کی ڈنڈا بردار فورس کے سربراہ تھے۔ جاوید ہاشمی بھی تھے جو کبھی لیفٹ اور کبھی سینٹر میں ہوتے تھے۔ جہانگیر بدر پہلے لبرل تھے۔ پھر انہوں نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کرلی۔ شہریار راشد انگریزی کے بہت اچھے لکھاری اور ن م راشد کے بیٹے تھے۔ یہ اس زمانے کے مشہور لوگ تھے۔
سوال: طلبا تنظیموں کا سوچ کر لڑائی جھگڑے اور گولیاں چلنے کا تصور ذہنوں میں آتا ہے۔ کیا آپ کے وقت میں بھی ایسا ہی تھا؟
شاہد محمود ندیم: ہمارے زمانے میں لیفٹ اور رائٹ کی بحث بہت گرم ہوتی تھی بلکہ لیفٹ کے درمیان میں پرو بیجنگ اور پرو ماسکو گروپس کے درمیان بھی بہت مباحثہ ہوتا تھا۔ لیکن بندوقوں کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ فائرنگ ہوجانا بہت انہونا واقعہ ہوتا تھا۔ سیاسی مخالفت جلسہ جلوس کی صورت میں ہوتی تھی۔ کہیں کہیں لیفٹ رائٹ کی دھینگامشتی ہوجاتی تھی۔ لیکن تشدد بہت محدود تھا۔ جتنا تھا وہ بس الفاظ ہی میں تھا۔
سوال: طلبا سیاست میں حصہ لیتے ہوئے آپ کو سب سے پہلے کب گرفتار کیا گیا؟
شاہد محمود ندیم: سب سے پہلے ایوب خان کے خلاف تحریک میں مجھے گرفتار کیا گیا اور سنگین قسم کے الزامات لگائے گئے کہ گورنمنٹ سیکریٹریٹ کو آگ لگادی، شیشے توڑ دیے۔ پہلے میں جلوسوں میں شرکت کرتا تھا اور پھر ادھر ادھر ہو جاتا تھا۔ پھر پولیس والے میرے گھر آئے اور میرے والد کو پکڑ کر لے گئے۔ پھر مجھے گرفتاری دینا پڑی۔ اس زمانے میں ایک ڈی ایس پی ہوتے تھے اصغر خان، جن کا لقب تھا ہلاکو خان۔ انھوں نے مجھ سے ایسے تفتیش کی جیسے میں کسی دہشت گرد تنظیم کا لیڈر ہوں کہ آپ کے ساتھی کون کون ہیں اور آپ کے ہتھیار کہاں ہیں۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ طارق علی نے مجھے اپنی کتاب دی تھی جس کے آخر میں مولاٹروو کوکٹیل کا خاکہ بنا ہوا تھا۔ یہ یورپ میں بڑی فیشن ایبل چیز تھی۔ اس کی وجہ سے وہ سمجھ رہے تھے کہ اس کے پیچھے بڑی سازش ہے۔ ہمیں ہائی کورٹ نے جلد رہا کردیا۔ اس کے بعد پنجاب یونیورسٹی یونین کے بحال ہونے کے بعد انتخابات ہوئے اور حکومت نے جماعت اسلامی کے ساتھ مل کر دھاندلی کی تو ہم نے احتجاج کیا۔ ہمیں پھر گرفتار کرلیا گیا اور یونیورسٹی سے بھی نکال دیا گیا۔
سوال: آپ زمانہ طالب علمی کے بعد عملی سیاست کا حصہ کیوں نہیں بنے؟
شاہد محمود ندیم: میں ان چند طالب علم رہنماؤں میں سے تھا جو کہانیاں اور ڈرامے لکھنا چاہتے تھے۔ اس زمانے میں ٹی وی نیا نیا آیا تھا۔ میں اس کا حصہ بن گیا۔ پی ٹی وی کی ٹریڈ یونین میں بہت سرگرم رہا۔ لیکن پارٹی پالیٹیکس نے مجھے کبھی قائل نہیں کیا۔ بھٹو صاحب سمیت جو اہم رہنما تھے، مجھے ان میں کافی تضادات نظر آتے تھے اور میں اپنے آپ کو کسی ایک پارٹی میں قید نہیں کرنا چاہتا تھا۔ سیاست کو دیکھتا رہا لیکن میرا زیادہ دھیان ٹی وی، پروڈکشن، شارٹ اسٹوریز اور ڈرامے لکھنے میں رہا اور اسی کے ذریعے میں اپنے سیاسی اور سماجی نقطہ نظر کو اجاگر کرتا رہا۔
سوال: ضیاالحق نے کن وجوہ پر طلبہ تنظیموں پر پابندی لگائی؟
شاہد محمود ندیم: ضیاالحق نے بھٹو صاحب کا تختہ پلٹنے کے بعد ہر چیز پر پابندی لگا دی تھی۔ سیاسی جماعتوں پر پابندی، پریس پر پابندی، ریڈیو ٹی وی ان کے کنٹرول میں تھا۔ ضیاالحق کے احکامات نہ ماننے پر مجھے ایک لمبے عرصے کے لیے جیل بھیج دیا گیا۔ اسٹوڈنٹس ایک ایسا گروپ تھا جسے خریدنا مشکل تھا۔ وہ نوجوان ہوتے ہیں، کسی ایک مقام پر نہیں ٹکتے۔ آج ایک کالج میں ہیں تو کل دوسرے کالج میں۔ ان پر ذمے داریوں کا کوئی بوجھ نہیں ہوتا۔ ان کے اندر نئی سوچ پروان چڑھتی ہے۔ ضیا الحق کے لیے یہ بہت بڑا خطرہ تھا کہ اگر طلبہ یونینز رہیں گی تو طلبہ سیاست بھی ہوگی اور سیاسی جماعتوں میں نیا خون آئے گا۔ ضیاالحق جو نظام لانا چاہتے تھے اس میں منظم اور باشعور نوجوان سیاستدانوں کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ ضیاالحق نے بنگلہ دیش سے بھی سبق سیکھا جہاں طلبہ سیاست قومی سیاست پر اثر انداز ہوئی تھی اور اسٹیبلشمنٹ اس طرح کا رسک نہیں لینا چاہتی تھی۔
سوال: کیا آپ سمجھتے ہیں کہ طلبہ تنظیموں پر پابندی ہونی چاہیے؟
شاہد محمود ندیم: قطعا نہیں۔ طلبہ تنظیموں پر پابندی کا نتیجہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ایک تو آمریت کو موقع ملتا ہے۔ دوسرے یہ کہ موروثی سیاست کو فائدہ ہوتا ہے۔ طلبہ سیاست کے ذریعے تربیت یافتہ رہنماؤں کی قومی سیاست میں آمد کا راستہ رک جاتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ اگر ہم پاکستان میں صحیح جمہوریت کو دیکھنا چاہتے ہیں تو طلبہ تنظیموں کی بحالی بہت ضروری ہے۔ ٹھیک ہے کہ وہ تشدد سے پاک ہوں اور ان میں سیاسی جماعتوں کے مفادات نہ ہوں۔ طلبہ تنظیموں میں سیاسی جماعتوں کی مداخلت کو روکنے کے طریقے ڈھونڈے جاسکتے ہیں۔ لیکن جب تک ہم اپنی نئی نسل پر بھروسہ نہیں کریں گے اور انھیں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع نہیں دیں گے سیاسی بد نظمی سے نہیں نکل سکیں گے۔
سوال: آج کے حالات میں آپ کو لگتا ہے کہ موجودہ حکومت طلبہ تنظیموں پر پابندی ہٹانے کا خطرہ مول لے سکتی ہے؟
شاہد محمود ندیم: میرا نہیں خیال کیونکہ موجودہ حکومت اور اس کے پیچھے جو نادیدہ حکمران ہیں، وہ موجودہ معروضی حالات میں ایسا رسک نہیں لیں گے۔ وہ چاہیں گے کہ کنٹرولڈ جمہوریت رہے۔ وہ طلبہ تنظیموں کو خطرہ ہی سمجھیں گے۔ اگر کبھی اجازت دی بھی تو اتنی بے معنی ہوگی کہ وہ چل نہیں سکے گی۔