پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور رُکن قومی اسمبلی شیخ روحیل اصغر کا گالی کو پنجاب کا کلچر قرار دینے پر اُن پر تنقید کی جا رہی ہے۔
قومی اسمبلی میں ہونے والی ہنگامہ آرائی اور نامناسب الفاظ کے استعمال کے بعد صحافیوں سے گفتگو میں شیخ روحیل اصغر سے سوال کیا گیا تھا کہ اسمبلی میں دی جانے والی گالیوں کو آپ کے اہلِ خانہ اور دیگر افراد نے بھی دیکھا اور سنا ہے تو اس پر شیخ روحیل اصغر نے کہا کہ یہ پنجاب کا کلچر ہے۔
خیال رہے کہ منگل کو قومی اسمبلی کے اجلاس کے دوران شیخ روحیل اصغر اور پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) کے رکنِ قومی اسمبلی علی نواز اعوان کے درمیان گالیوں کا تبادلہ ہوا تھا جس پر دونوں اراکین کو تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
اسپیکر قومی اسمبلی نے بدھ کو شیخ روحیل اصغر اور علی نواز اعوان سمیت سات اراکین کے اسمبلی میں داخلے پر پابندی عائد کی تھی۔ البتہ جمعرات کو یہ پابندی ختم کر دی گئی تھی۔
شیخ روحیل اصغر نے اپنے بیان پر نظرِ ثانی نہیں کی اور اس بیان پر قائم رہے جس کے باعث سوشل میڈیا پر اُنہیں آڑے ہاتھوں لیا جا رہا ہے۔
تحریکِ انصاف کے رہنما سینیٹر فیصل جاوید خان نے سوشل میڈیا پر ایک بیان میں کہا کہ پنجاب علامہ اقبال، بابا بلھے شاہ، سلطان باہو اور وارث شاہ کی دھرتی ہے اور یہاں کا کلچر بھی باقی صوبوں کی طرح عظیم ہے۔
فاطمہ مسرور نامی سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ہم بھی پنجاب میں رہتے ہیں اور ہمارے ہاں ایسا کوئی کلچر نہیں ہے۔
حسن اختر خان نامی سوشل میڈیا صارف کا کہنا تھا کہ ہر کسی کو اپنی رائے دینے کا حق ہے۔ گالی گلوچ کے کلچر کی کسی صورت بھی حمایت نہیں کی جا سکتی لیکن بدقسمتی سے یہ نہ صرف پنجاب بلکہ ہر جگہ عام ہے۔
'ایسے بیانات سے ہی پنجابی زبان بہت پیچھے ہے'
سابق وفاقی وزیر اور چیئرمین ورلڈ پنجابی کانگریس فخر زمان، شیخ روحیل اصغر کے بیان کو مسترد کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پنجاب میں کئی عظیم ہستیوں نے جنم لیا ہے جن میں بابا بلھے شاہ، وارث شاہ اور شاہ حسین شامل ہیں۔
اُن کے بقول ان تمام ہستیوں نے امن، محبت اور بھائی چارے کا پرچار کیا۔ لہٰذا گالیوں کو پنجاب کے کلچر سے جوڑنا کم علم کی نشانی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے فخر زمان کا کہنا تھا کہ ایسے بیانات اور ایسی سوچ کی وجہ سے ہی پنجابی زبان پیچھے ہے اور بہت کم لوگ اس کی تعلیم حاصل کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔
'پنجاب کا کلچر محبت اور امن ہے'
پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف لینگوئج، آرٹ اینڈ کلچر (پیلاک) کی ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر صغریٰ صدف کا کہنا تھا کہ شیخ روحیل اصغر کے بیان کو نہ صرف پنجاب، بلکہ دیگر صوبوں میں مادری زبان بولنے والے لوگوں نے بھی ناپسند کیا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بطور پنجابی میرے جذبات کو ٹھیس پہنچی ہے جن لوگوں کو ہمارے لیے قانون سازی کرنا ہے اور ہماری ثقافت کو آگے بڑھانا ہے اگر وہ ایسی بات کریں گے تو ملک کیسے آگے چلے گا۔
صغریٰ صدف کا کہنا تھا کہ ہر ملک کی پہچان اس کا کلچر اور اُس کی زبان ہوتی ہے۔ اگر ہم نے خود ہی اپنے کلچر کو گالی بنا دیا ہے تو لوگ ہمارے کلچر کی تعریف کیوں کریں گے۔
اُن کا کہنا تھا کہ پنجاب کا کلچر دنیا بھر میں بہت مقبول ہے اور یہ پوری دنیا میں علم و ادب کا گہوارہ رہا ہے۔
اُن کے بقول تخلیق کار، دانش ور اور صوفی بزرگ یہاں جنم لیتے رہے ہیں اور اُن سب کا پیغام محبت اور بھائی چارہ رہا ہے۔
ڈاکٹر صغریٰ صدف کا کہنا تھا کہ کوئی بھی شخص زندگی میں کسی نہ کسی وجہ سے ناگواری کا اظہار کرتا ہے اور ہر زبان بولنے والوں میں لوگ گالی دیتے ہیں لیکن اسے کسی ایک زبان سے منسوب کرنا نامناسب ہے۔
وہ کہتی ہیں کہ شیخ روحیل اصغر کو اپنے بیان کا دفاع کرنے کے بجائے معذرت کر لینی چاہیے۔
شیخ روحیل اصغر کا مؤقف
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ وہ جو پوری بات کرنا چاہتے تھے وہ نہیں کہہ سکے۔
اُن کے بقول "میں یہ کہنا چاہتا تھا کہ کسی بھی معاشرے میں جب برداشت کم ہو جاتی ہے تو غصہ زیادہ آتا ہے اور پھر آپ کو کچھ سمجھ نہیں آتی اور بہت سی ایسی باتیں منہ سے نکل جاتی ہیں جو قابلِ قبول نہیں ہوتیں۔"
اسمبلی میں ہونے والے جھگڑے کا حوالہ دیتے ہوئے شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ کیوں کہ اس وقت اُنہیں بھی گالیاں دی جا رہی تھیں، لہٰذا وہ بھی غصے میں تھے اور اسی پس منظر میں یہ بات کہی۔
شیخ روحیل اصغر کا کہنا تھا کہ لوگوں کے پاس بہت وقت ہے لہٰذا اُن پر تنقید کا اُن پر کوئی اثر نہیں پڑتا۔
شیخ روحیل اصغر کون ہیں؟
لاہور سے تعلق رکھنے والے شیخ روحیل اصغر 80 کی دہائی سے عملی سیاست میں سرگرم ہیں وہ 1985 کے غیر جماعتی انتخابات میں پہلی بار لاہور سے رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
وہ لاہور کے حلقہ این اے 128 سے 2018 کے عام انتخابات میں رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے۔
شیخ روحیل اصغر اس سے قبل 2013 اور 2008 میں بھی مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر رُکن قومی اسمبلی منتخب ہوتے رہے ہیں۔
وہ پاکستان مسلم لیگ (ق) اور پاکستان پیپلزپارٹی کا حصہ بھی رہ چکے ہیں۔