امریکہ کی جنوبی ریاست فلوریڈا میں ایک اسپیشل پراسیکیوٹر نے کہا ہے کہ فروری میں ہسپانوی نسل کے ایک سفید فام شخص کی چلائی ہوئی گولی سے ایک نہتے سیاہ فام نوجوان کی ہلاکت کا واقعہ گرینڈ جیوری کے سامنے پیش نہیں کیا جائے گا۔
فلوریڈا کے قانون کے تحت، اس فیصلے سے قتلِ عمد یا ’فرسٹ ڈگری مررڈر‘ کے الزامات عائد کیے جانے کا امکان ختم ہو گیا ہے اور اب یہ پراسیکوٹر انجیلا کوریئی پر منحصر ہے کہ کس قسم کے الزامات عائد کیے جائیں گے۔ اب تک گولی چلانے والے شخص کو نہ گرفتار کیا گیا ہے اور نہ کسی جرم کا الزام عائد کیا گیا ہے۔
اس کی وجہ فلوریڈا کا وہ قانون ہے جسے ’اسٹینڈ یور گراؤنڈ‘ قانون کہا جاتا ہے جس کے تحت کسی بھی شخص کو اپنے دفاع کے لیے ڈٹ جانے اور طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا حق حاصل ہے۔ اس کیس سے امریکہ میں ایک بار پھر اسلحہ کے قوانین کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے۔
محلے کی حفاظت کے لیے گشت لگانے والے رضاکار جارج زمرمین نے کہا ہے کہ انھوں نے17 سالہ ٹریرون کے ساتھ جھگڑے کے دوران اپنے دفاع میں گولی چلائی اور اس سے پہلے پولیس کی ایمرجینسی لائن نائن الیون کو فون کیا تھا اور ایک مشتبہ شخص کے بارے میں رپورٹ کی تھی۔
اس کیس سے فلوریڈا کے ’اسٹینڈ یور گراؤنڈ‘ کے بارے میں بحث چھڑ گئی ہے ۔ اس قانون کے تحت لوگوں کو اپنی حفاظت کے لیے جان لیوا طاقت کے استعمال کا حق حاصل ہے چاہے وہ اپنے گھر کے باہر ہی کیوں نہ ہوں۔
زمرین نے پولیس کو بتایا کہ اس نے مارٹن کو اس وقت گولی ماری جب اس نوجوان نے اسے مکے لگائے اور اس کا سر فٹ پاتھ سے ٹکرایا۔ اس قانون کی وجہ سے حکام نے زمرین پر کسی جرم کا الزام عائد نہیں کیا۔ لیکن ریاست فلوریڈا کے سابق گورنر جاب بش جنھوں نے اس قانون پر 2005ء میں دستخط کیے تھے، وہ کہتے ہیں کہ اس قانون کا اطلاق ٹریرون مارٹن کیس پر نہیں ہوتا۔
’’اسٹینڈ یور گراؤنڈ کا مطلب ہے کہ تم جہاں ہو وہاں ڈٹے رہو۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ کسی ایسے شخص کا پیچھا کرو جس نے اپنی پشت آپ کی طرف کر دی ہے‘‘۔
’اسٹینڈ یور گراؤنڈ‘ قانون کے حامی کہتے ہیں کہ اس کی وجہ سے پُر تشدد جرائم کی تعداد میں کمی ہوئی ہے اور یہ ان شہریوں کی حفاظت کرتا ہے جو اپنا دفاع کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ گریگ اسٹون ہتھیار رکھنے کے قوانین کو وسعت دینے کے حق میں ہیں۔
’’یہ بات بارہا ثابت ہو چکی ہے کہ اس طرح ہم زیادہ محفوظ ہو جائیں گے۔ مسلح معاشرہ زیادہ شائستہ معاشرہ ہوتا ہے۔‘‘
بارڈی سینیٹر ٹو پریونٹ گن وائیلنس کے ڈینئیل گراس اس رائے سے متفق نہیں ہیں ۔ انھوں نے ارکانِ کانگریس سے کہا کہ اس قانون کو زیادہ غور سے جانچنے کی ضرورت ہے۔
’’فلوریڈا میں قانون نافذ کرنے والے حکام کے پاس ایسے اختیارات نہیں ہیں کہ وہ ایسے لوگوں سے ہتھیار واپس لے لیں جو چھپا کر ہتھیار لے جا رہے ہوں، چاہے ان لوگوں نے نہتے لوگوں کو قتل ہی کیوں نہ کیا ہو۔ فلوریڈا جیسی ریاستوں میں جہاں اسٹینڈ یور گراؤنڈ یا زیادہ صحیح یہ ہو گا کہ گولی پہلے مارو اور سوال بعد میں پوچھو جیسے قوانین موجود ہیں، ایسا بہت زیادہ ہوتا ہے۔‘‘
فلوریڈا میں نفاذِ قانون کے اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسٹینڈ یور گراؤنڈ قانون منظور ہونے کے بعد پہلے پانچ برسوں میں قتل کے ایسے کیسوں کی تعداد تین گنی ہو گئی جنہیں جائز سمجھا گیا۔ فلوریڈا میں وکیلِ صفائی کینڈل کوفی کہتے ہیں۔
’’جس طرح اسٹینڈ یور گراؤنڈ قانون کا اطلاق کیا جا رہا ہے اور مقدموں میں جیوری کا جو رد عمل ہوتا ہے اس سے تو ایسا لگتا ہے کہ یہ قانون گولی چلانے والے کے لیے قتل کرنے کا لائسنس ہے۔ وہ جب چاہے اپنے دفاع کا دعویٰ کر سکتا ہے اور کوئی چشم دید گواہ نہیں ہوتے جو گولی چلانے والے کے دعوے کو جھٹلا سکیں۔‘‘
ریاست فلوریڈا کے سابق سینیٹر ڈیورل پیڈن نے اس قانون کی تشکیل میں مدد دی تھی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس قانون کا مقصد یہ نہیں تھا کہ لوگ اس کا غلط استعمال کریں۔
’’اس قانون میں کہیں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ لوگ قانون کو اپنے ہاتھ میں لیں۔ قانون میں کسی کا پیچھا کرنے کا کوئی ذکر نہیں ہے، نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ آپ کوئی گن لے کر کسی کا پیچھا کریں۔ اس قانون کا مقصد یہ نہیں تھا کہ ان تمام مسائل سے نمٹا جائے۔‘‘
امریکہ کی نصف سے زیادہ ریاستوں میں اسی قسم کے قانون موجود ہیں۔ یہ قوانین روز بروز زیادہ متنازع ہوتے جا رہے ہیں۔ ٹریرون مارٹن کی ہلاکت کے بعد بہت سے مظاہرین جو سڑکوں پر نکل آئے ہیں، اس امید کا اظہار کر رہے ہیں کہ قانون ساز ان قوانین کا بغور جائزہ لیں گے اور ان پر نظر ثانی کے لیے اقدامات کریں گے۔