سکھ مت سے تعلق رکھنے والے عقیدت مندوں کی جانب سے منائی جانے والی بیساکھی تہوار کی تین روزہ تقریبات پیر کو ختم ہو گئیں۔ بھارت اور یورپ سمیت دنیا کے متعدد ممالک سے پاکستان آئے ہوئے ہزاروں سکھ یاتریوں نے حسن ابدال کے گردوراہ پنجہ صاحب میں منعقدہ ان تقریبات میں خصوصی طور پر شرکت کی جس سے شہر کی رونقیں دوبالا ہوگئیں۔
اختتامی تقریب میں حکومت ِپاکستان کی جانب سے خصوصی طور پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے شرکت کی۔ اس موقعے پر یاتریوں کے لئے لنگر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بیساکھی کی مناسبت سے مذہبی رسومات کے طور پر سکھ برادری نے باباولی قندھاری کی پہاڑی پر متھا ٹیکا۔
پاکستان سکھ کونسل کے سربراہ سردار رمیشن سنگھ نے جو خود بھی بیساکھی کی تقریبات میں شریک تھے، وی او اے کے نمائندے کو بتایا کہ یاتریوں کے ٹھہرنے کے لئے اسکولوں میں انتظامات کئے گئے تھے تاہم بہت سے عقیدت مندوں نے گردوارے کے برآمدوں میں قیام کرنا پسند کیا کیوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں گزارنا چاہتے تھے۔
بیساکھی میلے میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے بھارتی یاتریوں کی دلی کیفیات بیان کرتے ہوئے سردار رمیش سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور بہتر ین انتظامات پر انتہائی خوش اور شکرگزار تھے تاہم انہیں اس بات کا افسوس بھی تھا کہ سیکورٹی کے سبب انہیں گرد وارے اور مخصوص احاطے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ورنہ وہ جی بھر کر گھومتے اور شاپنگ کرتے۔
یاتریوں کو باباولی قندھاری کی پہاڑی تک جانے کے لئے بھی سیکورٹی کے سخت مراحل طے کرنا پڑے۔
اس دوران پاکستانی سکھ لڑکیوں نے مہمان خواتین اور لڑکیوں کے ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن بنائے اور ایک دوسرے کو تحفے دیئے۔
سرکاری خبر رساں ادارے اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت سے آنے والی خواتین اس بار اپنے ساتھ بھارتی کپڑے، بنارسی سوٹ، ململ کے ملبوسات اورجیولری فروخت کی غرض سے پاکستان لائی ہیں۔ پاکستانی شہریوں نے ان سے ہاتھوں ہاتھ یہ سامان خریدلیا۔
عقیدت مندوں کے لئے گردوارے میں مختلف کھانے پینے کی مفت اشیاء کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے جن پر کافی رش دیکھنے میں آیا۔
سکھ برادری نے رسومات کے تحت صبح سویرے گردوارے میں موجود ٹھنڈے اورشفاف پانی کے چشموں پر غسل کیا اور اس کے بعد روایتی انداز سے حلوہ پوری، پراٹھے سبزی اور چائے سے ناشتہ کیا۔
ہر صبح سکھ برادری اپنی مقدس کتاب ’گرو گرنتھ صاحب‘ کا پاٹ ضرور سنتی ہے۔ اس دوران گروبانی بھی جاری رہتی ہے چنانچہ بیساکھی کی تین روزہ تقریبات میں بھی سب کا یہی معمول رہا۔
اختتامی تقریب میں حکومت ِپاکستان کی جانب سے خصوصی طور پر وفاقی وزیر برائے مذہبی امور سردار محمد یوسف نے شرکت کی۔ اس موقعے پر یاتریوں کے لئے لنگر کا اہتمام کیا گیا تھا۔ بیساکھی کی مناسبت سے مذہبی رسومات کے طور پر سکھ برادری نے باباولی قندھاری کی پہاڑی پر متھا ٹیکا۔
پاکستان سکھ کونسل کے سربراہ سردار رمیشن سنگھ نے جو خود بھی بیساکھی کی تقریبات میں شریک تھے، وی او اے کے نمائندے کو بتایا کہ یاتریوں کے ٹھہرنے کے لئے اسکولوں میں انتظامات کئے گئے تھے تاہم بہت سے عقیدت مندوں نے گردوارے کے برآمدوں میں قیام کرنا پسند کیا کیوں کہ وہ زیادہ سے زیادہ وقت عبادت اور مذہبی رسومات کی ادائیگی میں گزارنا چاہتے تھے۔
بیساکھی میلے میں شرکت کی غرض سے آئے ہوئے بھارتی یاتریوں کی دلی کیفیات بیان کرتے ہوئے سردار رمیش سنگھ کا کہنا تھا کہ وہ پاکستانیوں کی مہمان نوازی اور بہتر ین انتظامات پر انتہائی خوش اور شکرگزار تھے تاہم انہیں اس بات کا افسوس بھی تھا کہ سیکورٹی کے سبب انہیں گرد وارے اور مخصوص احاطے سے باہر جانے کی اجازت نہیں تھی ورنہ وہ جی بھر کر گھومتے اور شاپنگ کرتے۔
یاتریوں کو باباولی قندھاری کی پہاڑی تک جانے کے لئے بھی سیکورٹی کے سخت مراحل طے کرنا پڑے۔
اس دوران پاکستانی سکھ لڑکیوں نے مہمان خواتین اور لڑکیوں کے ہاتھوں پر مہندی کے ڈیزائن بنائے اور ایک دوسرے کو تحفے دیئے۔
سرکاری خبر رساں ادارے اور مقامی میڈیا رپورٹس کے مطابق بھارت سے آنے والی خواتین اس بار اپنے ساتھ بھارتی کپڑے، بنارسی سوٹ، ململ کے ملبوسات اورجیولری فروخت کی غرض سے پاکستان لائی ہیں۔ پاکستانی شہریوں نے ان سے ہاتھوں ہاتھ یہ سامان خریدلیا۔
عقیدت مندوں کے لئے گردوارے میں مختلف کھانے پینے کی مفت اشیاء کے اسٹالز بھی لگائے گئے تھے جن پر کافی رش دیکھنے میں آیا۔
سکھ برادری نے رسومات کے تحت صبح سویرے گردوارے میں موجود ٹھنڈے اورشفاف پانی کے چشموں پر غسل کیا اور اس کے بعد روایتی انداز سے حلوہ پوری، پراٹھے سبزی اور چائے سے ناشتہ کیا۔
ہر صبح سکھ برادری اپنی مقدس کتاب ’گرو گرنتھ صاحب‘ کا پاٹ ضرور سنتی ہے۔ اس دوران گروبانی بھی جاری رہتی ہے چنانچہ بیساکھی کی تین روزہ تقریبات میں بھی سب کا یہی معمول رہا۔