کراچی —
پاکستان میں جہاں سرکاری اسکولوں میں تعلیم کی صورتحال ابتر دکھائی دتیی ہے وہیں پاکستان کے اہم صوبے سندھ کے ضلع تھرپارکر کے 655 اسکولوں کی عمارتیں تو موجود ہیں مگر یہاں پڑھائی کا کوئی سلسلہ نہیں ہے۔
650 سے زائد سرکاری اسکولوں میں سے 480 اسکول لڑکوں کے جبکہ 175 لڑکیوں کے اسکول ہیں۔ ان اسکولوں کی بندش کے باعث ضلع کے درجنوں بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ضلع تھرپارکر کے کل 4 ہزار 81 اسکولوں میں سے 655 اسکولوں کا بند ہونا ضلع میں تعلیم کی صورتحال کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کر رہا ہے۔
روزنامہ 'جنگ' کی خبر کے مطابق تھرپارکر کے کئی اسکولوں کو اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے سکول کی عمارتیں موجود ہونے کے باوجود اساتذہ نہ ہونے کے باعث اسکول بند پڑے ہیں۔ ضلع میں اساتذہ کی کمی بھی تعلیم کیلئے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے دوسری جانب ضلع تھرپارکر کی ہی بات کی جائے تو وہاں 1200 سے زائد اسکول ایسے ہیں جہاں چاردیواری موجود نہیں ہے جبکہ درجنوں اسکولوں میں طالبعلموں کیلئے بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔
سندھ کے اہم اضلاع میں طلبہ کی تعداد 2 لاکھ 35 ہزار 661 ہے۔ تاہم جہاں سندھ کے کئی اضلاع میں سرکاری اسکولوں کی ابتری ایک سوالیہ نشان ہے؟ وہیں صوبائی محکمہ ِتعلیم کی کارکردگی پر بھی ایک نشان ہے کہ ملک میں تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باعث طالبعلموں کے لیے تعلیم کی سہولت میسر نہ ہونا کسی لمحہ ِ فکریہ سے کم نہیں۔
650 سے زائد سرکاری اسکولوں میں سے 480 اسکول لڑکوں کے جبکہ 175 لڑکیوں کے اسکول ہیں۔ ان اسکولوں کی بندش کے باعث ضلع کے درجنوں بچے اور بچیاں تعلیم حاصل کرنے سے محروم ہیں۔ضلع تھرپارکر کے کل 4 ہزار 81 اسکولوں میں سے 655 اسکولوں کا بند ہونا ضلع میں تعلیم کی صورتحال کی کوئی اچھی تصویر پیش نہیں کر رہا ہے۔
روزنامہ 'جنگ' کی خبر کے مطابق تھرپارکر کے کئی اسکولوں کو اساتذہ کی کمی کا سامنا ہے۔ اسی وجہ سے سکول کی عمارتیں موجود ہونے کے باوجود اساتذہ نہ ہونے کے باعث اسکول بند پڑے ہیں۔ ضلع میں اساتذہ کی کمی بھی تعلیم کیلئے ایک مسئلہ بنی ہوئی ہے دوسری جانب ضلع تھرپارکر کی ہی بات کی جائے تو وہاں 1200 سے زائد اسکول ایسے ہیں جہاں چاردیواری موجود نہیں ہے جبکہ درجنوں اسکولوں میں طالبعلموں کیلئے بنیادی سہولتوں کا فقدان ہے۔
سندھ کے اہم اضلاع میں طلبہ کی تعداد 2 لاکھ 35 ہزار 661 ہے۔ تاہم جہاں سندھ کے کئی اضلاع میں سرکاری اسکولوں کی ابتری ایک سوالیہ نشان ہے؟ وہیں صوبائی محکمہ ِتعلیم کی کارکردگی پر بھی ایک نشان ہے کہ ملک میں تعلیمی اداروں کی موجودگی کے باعث طالبعلموں کے لیے تعلیم کی سہولت میسر نہ ہونا کسی لمحہ ِ فکریہ سے کم نہیں۔