رسائی کے لنکس

سندھ کی دو ہندو بہنوں کے مبینہ اغوا کا معاملہ دو ہائی کورٹس میں


اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت، جہاں دونوں بہنوں نے قبول اسلام اور شادی کے بعد مرضی کی زندگی گزارنے کی درخواست دی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت، جہاں دونوں بہنوں نے قبول اسلام اور شادی کے بعد مرضی کی زندگی گزارنے کی درخواست دی ہے۔

سندھ کے علاقے ڈہرکی سے اغوا ہونے والی دو ہندو بہنوں کا معاملہ اعلی عدلیہ میں پہنچ گیا ہے۔ رینا اور روینا کے بھائی شمن داس نے لاہور ہائی کورٹ بہاول پور بینچ میں ان کی بازیابی کی اپیل دائر کی ہے کہ اس کی بہنیں ابھی شادی کی عمر کو نہیں پہنچیں۔

اس سے قبل دونوں بہنوں کی طرف اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کی جانے والی ایک درخواست میں کہا گیا تھا کہ انہوں نے اسلام قبول کر کے اپنی مرضی سے شادی کر لی ہے اور انہیں اپنی مرضی کی زندگی گزارنے کی اجازت دی جائے۔

دوسری طرف سندھ اور پنجاب کی پولیس اس کیس میں وفاقی حکومت کی طرف سے نوٹس لیے جانے کے بعد کافی متحرک ہو گئی ہے۔ اور رحیم یار خان کے علاقہ خانپور سے نکاح سے تعلق کے سلسلے میں ایک مذہبی جماعت کے عہدیدار سمیت کچھ گواہوں کو بھی حراست میں لیا جا چکا ہے۔

ڈہرکی کے ہری لال کی دو بیٹیاں رینا اور روینا کی طرف سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ درخواست میں وزارت داخلہ بذریعہ وزیر مملکت، سندھ حکومت بذریعہ چیف سیکریٹری، پنجاب سندھ اور اسلام آباد کے آئی جیز، والد ہری لال، ایم این اے رمیش کمار اور پیمرا کو فریق بناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ وہ آزاد اور بالغ شہری ہیں اور آئین پاکستان انہیں اپنی مرضی سے مذہب اختیار کرنے اور شادی کرنے کا حق دیتا ہے۔ لیکن ان کے والد اور ایم این اے رمیش کمار سیاسی طور پر اہمیت حاصل کرنے کے لیے اس کو ایشو بنا رہے ہیں۔ ہمیں جان کا خطرہ ہے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ ہم نے 20 مارچ کو اسلام قبول کیا اور 22 مارچ کو اپنی مرضی سے خانپور میں کورٹ میرج کی اور باقاعدہ اعلان کیا۔ اب سیاسی دباؤ کی وجہ سے حکومت اور پولیس انہیں ہراساں کر رہی ہے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر اس درخواست میں دونوں بہنوں رینا اور روینا کے ساتھ ساتھ صفدر اور برکت بھی شامل ہیں جن پر مبینہ طور پر ان دونوں بہنوں کے اغوا اور جبری شادی کا الزام ہے۔ اس رٹ درخواست پر دونوں بہنوں اور ان دونوں افراد کے دستخط اور انگوٹھوں کے نشان بھی ثبت ہیں۔

دوسری طرف لاہور ہائیکورٹ بہاولُپور بنچ میں رینا اور روینا کے بھائی شمن داس کی طرف اپنی دونوں بہنوں کی بازیابی کے لیے درخواست دائر کی گئی ہے جس میں ریجنل پولیس آفیسر بہاولُپور، ڈی پی اور رحیم یار خان، ایس ایچ او سٹی خانپور اور صفدر اور برکت کو فریق بنا کر اپنی بہنوں کے بازیابی کی درخواست کی گئی ہے اور الزام عائد کیا کہ صفدر اور برکت نے دونوں بہنوں کا اغوا کیا ہے۔

ایک طرف تو اس کیس میں اسلام آباد اور بہالپور میں الگ الگ مقدمے دائر ہوئے ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ ملکی اور بین الاقوامی طور پر توجہ حاصل کر جانے والے اس کیس میں وزیر اعظم اور وفاقی حکومت کے نوٹس لیے جانے کے بعد پنجاب پولیس نے خانپور میں ایک مذہبی جماعت کے عہدیدار جواد حسن گل، ان کے نکاح کے گواہان اور شادی کی تقریب میں شرکت کرنے والے کچھ افراد کو حراست میں لیا ہے۔ جن میں سے تین افراد کو سندھ پولیس کے حوالے کر دیا گیا ہے۔ رحیم یار خان کے ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر عمر سلامت کے مطابق پنجاب پولیس اس کیس میں سندھ پولیس کے ساتھ مکمل تعاون کر رہی ہے۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ہم ان کی تمام قانونی معاونت کر رہے ہیں ہیں۔ پہلے رحیم یار خان کی پولیس نے جو نکاح پڑھانے والے جواد گل کو گرفتار کیا۔ اور دیگر متعلقہ افراد کو پکڑا ہے۔ جب کہ لڑکیوں نے نکاح کے بعد پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا ہے کہ انہوں نے اپنی مرضی سے اسلام قبول کیا اور شادی کی۔ اب معاملہ عدالت میں ہے اور وہی اس کا فیصلہ کرے گی۔

پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ڈہرکی پولیس اپنی تحقیقات کر رہی ہے جس سے یہ واضح ہو گا کہ آیا لڑکیوں کو اغوا کیا گیا ہے یا وہ اپنی مرضی سے گئی ہیں۔

دوسری طرف رینا اور روینا کے بھائی سمن داس اور ان کے وکیل کا کہنا ہے کہ لڑکیوں کی عمر 13 اور 15 برس ہے۔ کم عمری میں ان کی شادی ہو ہی نہیں سکتی۔ یہ جبری شادی کا کیس بھی ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس نے گھوٹکی میں چھاپے مار کر آٹھ سے دس افراد کو حراست میں لیا ہے۔ اس طرح اب تک مجموعی طور پر 12 کے لگ بھگ افراد پکڑے جا چکے ہیں۔ سندھ پولیس کے مطابق جن لڑکوں پر اغوا اور شادی کا الزام ہے وہ ان لڑکیوں کے گھر کے بالکل سامنے رہتے ہیں۔ اس بارے میں تفتیش ہو رہی ہے کہ آیا لڑکیاں اپنی مرضی سے تو نہیں گئیں۔ لڑکیوں کے والدین پولیس کی تحقیقات سے مطمئن نہیں ہیں۔ وہ یہ مطالبہ کر رہے ہیں کہ لڑکیوں کو فوری طور پر ہمارے سامنے لایا جائے اور ہم سے ملوایا جائے۔

لڑکیوں کی عمر کے مقدمے کے حوالے سے نادرا کا ریکارڈ اہم کردار ادا کرے گا۔

اس کیس نے سوشل میڈیا پر کافی توجہ حاصل کی ہے۔ پاک بھارت کشیدگی کے تناظر میں بھی اس پر پاکستان اور بھارت دونوں طرف سے مین اسٹریم اور سوشل میڈیا پر لوگ کھل کر ایک دوسرے پر نکتہ چینی کر رہے ہیں لیکن اس کے ساتھ پاکستان میں اقلیتوں کی صورت حال، مذہب کی تبدیلی، اور جبری اور کم عمری کی شادی جیسے سماجی ایشوز بھی ایک بار زیر بحث آ گئے ہیں۔

XS
SM
MD
LG