امریکہ میں سیاسی پناہ کے متمنی سنگاپور کے ایک بلاگر نے جمعہ کو کہا کہ انہیں انٹرنیٹ پر لوڈ کی جانے والے اپنی ان اشتعال انگیز وڈیوز پر افسوس ہے جس کی وجہ سے انھیں اپنے آبائی ملک میں دو بار جیل جانا پڑا۔
اٹھارہ سالہ آموس یی جو امریکی ریاست ایلے نوئے میں زیر حراست ہیں نے خبررساں ادارے روئیڑز کو بتایا سنگاپور کے آنجہانی وزیر اعظم اور کئی مذاہب سے متعلق بنائی جانے والی ان کی توہین آمیز وڈیو کسی طور بھی مناسب نہیں تھیں۔
آموس جو اب میک ہنری کاؤنٹی کے ایک بحالی مرکز میں داخل ہیں، نے ٹیلی فون پر بتایا کہ "یہ نفرت آمیز تقریر تھی، یہ نہایت ہی غیر مہذب ہے اور یہ کوئی اچھی سرگرمی نہیں ہے۔ مجھے وہ وڈیوز بنانے پر نہایت افسوس ہے۔"
آموس کی ان وڈیوز کی وجہ سے ان پر مقدمہ قائم کیا گیا اور سزا بھی ہوئی جس کی وجہ سے سنگاپور میں سنسر شپ اور آزادی اظہار پر ایک بحث چھڑ گئی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں اور اقوام متحدہ نے اس معاملے کی سماعت پر بڑے قریب سے نظر رکھی۔
گزشتہ سال آموس کو سنگاپور کے سابق وزیر اعظم لی کیوان یئو کی وفات کے فوری بعد ان کے بارے میں دیے گئے بیانات اور مذہبی گروپوں کی توہیں کا مرتکب قرار دے کر چارہفتوں کی قید کی سزا سنائی گئی۔
رواں سال ستمبر میں آموس کو انٹرنیٹ پر عیسائیت اور اسلام کے بارے میں غیر مناسب بیان دینے کے اقرار کے بعد چھ ہفتوں کی قید کی سزا سنائی گئی۔
آموس 16 دسمبر کو شکاگو کے او ہیر ائیر پورٹ پر پہنچے تو انھوں نے کسٹم کے عہدیداروں کو بتایا کہ وہ امریکہ میں سیاسی پناہ کے متمنی ہیں۔
آموس نے کہا کہ وہ ایلی نوئےمیں رہنا چاہتے ہیں اور سنگا پور واپس جانےکا ان کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔ سنگا پور میں ہر 18 سالہ شہری کے لیے یہ لازمی ہے کہ وہ فوج میں شامل ہو لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ (فوج میں) شامل نہیں ہونا چاہتے۔
آموس کی وکیل سینڈرا گراسمین نے کہا کہ آموس کے معاملے کی سماعت ایک جج کے سامنے دو ہفتوں کے اندر ہو جانی چاہیے تھی۔ انہوں نے کہا کہ آموس کا سنگاپور کی حکومت کے ساتھ کوئی رابطہ نہیں ہے۔