|
ویب ڈیسک — وفا ایلوان غزہ میں قائم خیمہ بستی میں اپنے سات بچوں کے ساتھ پناہ لیے ہوئے ہیں۔ ان کا ایک پانچ سالہ بیٹا بھی ہے جو رات بھر سو نہیں پاتا۔ اس کے نہ سونے کی وجہ غزہ میں جاری جنگ کے دوران ہونے والی فائرنگ نہیں بلکہ جلد پر ہونے والی خارش ہے۔
اس بچے کی پریشان والدہ کہتی ہیں کہ "میرا بیٹا رات بھر سو نہیں سکتا کیوں کہ وہ اپنے جسم پر خارش روک نہیں پاتا۔"
پانچ سالہ بچے کے پاوؤں، ٹانگوں اور جسم کے مختلف حصوں پر سفید اور سرخ دھبے ہیں۔ وہ غزہ کے ان باشندوں میں سے ایک ہے جو جلد کے انفیکشن میں مبتلا ہیں جن میں اسکیبیز سے لے کر چکن پاکس، لائس، امپیٹگو اور دانوں کے دیگر انفیکشن شامل ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) کا کہنا ہے کہ سات اکتوبر کو اسرائیل حماس جنگ کے آغاز کے بعد سے فلسطینی علاقوں میں ڈیڑھ لاکھ سے زیادہ افراد خراب حالات میں جلد کی بیماریوں کا شکار ہو چکے ہیں۔
اسرائیل اور حماس جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے سے ہوا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے جواب میں اسرائیل کی جانب سے شروع کی گئی کارروائیوں میں غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق لگ بھگ 38 ہزار افراد مارے جا چکے ہیں جس میں بڑی تعداد شہریوں کی ہے۔
وفا ایلوان کہتی ہیں کہ ہم زمین پر، ریت پر سوتے ہیں جہاں ہمارے نیچے کیڑے آ جاتے ہیں۔ وفا کا خاندان ان ہزاروں خاندانوں میں سے ایک ہے جو وسطی غزہ کے شہر دیر البلاح کے قریب سمندر کے پاس ایک ریتیلی پٹی پر رہتے ہیں۔
ایلوان کا خیال ہے کہ اس سے انفیکشن ناگزیر ہے۔ "ہم اپنے بچوں کو پہلے کی طرح نہلا نہیں سکتے۔ ہمارے پاس جگہ کو دھونے اور صاف کرنے کے لیے یہاں کوئی حفظانِ صحت اور سینیٹری مصنوعات نہیں ہیں۔ یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔"
والدین اپنے بچوں کو غزہ کے ایک طرف موجود بحیرۂ روم میں نہانے کا کہتے تھے۔ لیکن جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی آلودگی نے بنیادی سہولتوں کو تباہ کردیا ہے جس نے بیماریوں کے خطرے کو بڑھا دیا ہے۔
وفا ایلوان کہتی ہیں کہ سمند سارا گندا ہو چکا ہے۔ وہ کچرا اور بچوں کے نیپکن تک سمندر میں ہی پھینک دیتے ہیں۔
عالمی ادارۂ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے جنگ کے آغاز سے اب تک اسکیبیز اور لائس کے 96 ہزار 417 کیسز، چکن پاکس کے نو ہزار 274 کیسز، اسکن ریشز یا جلد پر خارش کے 60 ہزار 130 کیسز جب کہ امپیٹگو کے 10 ہزار 38 کیسز رپورٹ کیے ہیں۔
دیر البلاح کیمپ میں ایک عارضی کلینک چلانے والے فارماسسٹ سمیع حامد کے مطابق فلسطینی ساحلی علاقوں میں خاص طور پر اسکیبیز اور چکن پاکس بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ہیں۔
چھالے اور خارش
اسی کلینک میں دو لڑکے ایسے موجود تھے جن کے ہاتھوں، پاؤں، کمر اور پیٹ پر مخصوص چکن پاکس سے ہونے والے چھالے اور نشانات موجود تھے۔ لیکن ادویات کی کمی کے باعث 43 سالہ حامد ان لڑکوں کی جلد پر خارش دور کرنے کے لیے کیلامائن لوشن لگا رہے تھے۔
انہوں نے کہا کہ گرم موسم اور صاف پانی کی کمی کی وجہ سے بچوں کی جلد متاثر ہوتی ہے۔
غزہ میں ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے میڈیکل کو آرڈینیٹر محمد ابو مغیصیب نے 'اے ایف پی' کو بتایا کہ بچے کمزور ہیں کیوں کہ "وہ بچے ہیں -- وہ باہر کھیلتے ہیں، وہ کسی بھی چیز کو چھوتے ہیں، بغیر دھوئے کچھ بھی کھا لیتے ہیں۔"
ان کا کہنا تھا کہ گرم موسم میں پسینہ زیادہ آتا ہے جس میں گرد کے شامل ہونے سے ریشز اور الرجیز ہوتی ہیں اور اگر ان پر کُھجا لیا جائے تو یہ انفیکشن کا باعث بن جاتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ "لوگ اب گھروں میں نہیں رہ رہے ہیں۔ وہاں کوئی مناسب حفظانِ صحت نہیں ہے۔"
ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ڈاکٹروں کو جلد کی ایک اور بیماری 'لیشمنائسس' کے کیسز سامنے آنے کا خدشہ ہے۔ یہ بیماری اپنی انتہائی خطر ناک شکل میں جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ غزہ کے بچے پہلے ہی بیماری کا بہت زیادہ شکار ہیں کیوں کہ ان کا مدافعتی نظام غذائی قلت سے متاثر ہے۔
فارماسسٹ سمیع حامد کہتے ہیں کہ ان کی ٹیم نے حال ہی میں ایک عارضی اسکول کا دورہ کیا جہاں 150 میں سے 24 بچوں کو اسکیبیز تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ یہاں ٹوائلیٹس قدیم طریقے سے بنتے ہوئے ہیں جن کی نکاسی خیموں کے درمیان سے ہو رہی ہے اور یہ وبائی امراض کے پھیلاؤ میں کردار ادا کرتی ہیں۔
ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ وہاں ڈائریا یعنی اسہال کے چار لاکھ 85 ہزار کیسز رپورٹ ہو چکے ہیں۔
اقوامِ متحدہ نے منگل کو کہا تھا کہ لگ بھگ 24 لاکھ آبادی والے غزہ میں اب تک 19 لاکھ افراد بے گھر ہو چکے ہیں۔
اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔