کراچی —
پاکستان میں جہاں خواتین مردوں کے ساتھ ساتھ دیگر شعبوں میں بھی اپنا مقام بنارہی ہیں وہیں کاروبار بھی ایسا شعبہ ہے جہاں متعدد خواتین اپنی محنت اور کوشش سے کاروباری طبقے کا حصہ بن رہی ہیں۔
ان کاروباری خواتین میں سے زیادہ تر خواتین اپنے ذاتی کاروبار سے وابستہ ہیں جنھوں نے چھوٹے پیمانے پر اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اب اکثر خواتین آن لائن بزنس چلارہی ہیں۔
نازش نے حال ہی میں اپنا ایک بیوٹی پارلر کھولا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیوٹی پارلر میں ویسے تو کئی خواتین گاہک آرہی ہیں مگر جب سے انھوں نے اپنے اس بیوٹی پارلر کا ایک فیس بک پیج تخلیق کیا ہے، ان کی گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں انہیں سوشل میڈیا پر اہنے بزنس کی پروموشن کا اچھا نتیجہ حاصل ہورہا ہے۔
خواتین کا کہنا ہے کہ جہاں انھیں اپنے کاروباری کے فروغ میں کئی مسائل درپیش ہیں وہیں سوشل میڈیا پیجز پر موجود لوگوں کو موجودہ ایپلی کیشن کے بارے میں بتانا پڑتا ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ "اگر کوئی فیس بک استعمال کررہا ہے تو وہ گوگل پیج سے واقف نہیں اور ایسے ہی کئی افراد ہیں جو انٹرنیٹ پر ہر ایپلی کیشن استعمال کرنا ضروری نیں سمجھتے ہیں۔ ایسے میں ان کو دوسری ایپلی کیشن جوائن کروانے میں کافی محنت لگتی ہے۔"
فیس بک ٹوئٹر، گوگل، واٹس ایپ اور وائبر ایسی ایلپیکیشنز ہیں جن میں تمام پیجز کو ایک ساتھ لنک کرسکتے ہیں مگر ہر صارف کا ہر ایپلیکیشن پر ہونا ضروری نہیں لوگ اپنی مرضی سے ایپلی کیشن چنتے ہیں۔
'گوگل' بزنس گروپ، 'وومن کراچی' کے مینجر امتیاز نور نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں کہا کہ اکثر خواتین اپنے کاروباری معاملات زیر بحث نہیں لاتی ہیں جس کیلئے ایسی آگاہی ورکشاپ اور کانفرنس معاون ثابت ہوتی ہیں جب خواتین ایک ساتھ مل کر بیٹھ کر معاملات اور اپنے کاروباری مسائل کے حل زیر بحث لائیں تو کوئی شک نہیں کہ کاروباری خواتین کے مسائل کافی حد تک حل ہوسکیں۔
پاکستان میں کاروباری مردوں کے مقابلے میں کاروباری خواتین کو درپیش چینلجز کے حوالے سے امتیاز نور کا کہنا تھا کہ مرد حضرات تو اپنے مسائل کھل کر شیئر کرتے ہیں جبکہ خواتین کو ہی کاروباری خواتین کے درمیان ان معاملات میں کافی خلا ہے جسے دور کرنےکی ضرورت ہے۔
ان کے بقول اگر کوئی خاتون کوئی کاروبار شروع کرنا چاہ رہی ہیں اور کئی مسائل ک باعث نہیں کرپارہی ہیں تو انھیں چاہئے کہ اپنے مسائل کو پیشہ ورانہ کاروباری خواتین کے ساتھ ملکر بات کرکے حل کریں۔
گوگل بزنس گروپ کی ٹیم لیڈر سلمی جعفری کا کہنا ہے کہ آن لائن طریقے سے بزنس کو پروموٹ کرنا آسان ہے وہاں آپ کو کئی ایسے افرادآن لائن ملتے ہیں جو کہ عملی زندگی میں نا مل پائیں اور اسکی جدید شکل اب موبائل فون ہے جہاں ہر ایپلی کیشن کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔
دنیا کے سب سے مشہور سرچ انجن چلانے والی 'گوگل' کمپنی کی جانب سے خواتین کو انٹرنیٹ کے نئے طریقوں سے متعارف کرنے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جہاں چھوٹے پیمانے کا کاروبار کرنےوالی خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور انھوں نے اپنے تجربات پیش کئے اور کئی مفید مشورے بھی حاصل کئے۔
ان کاروباری خواتین میں سے زیادہ تر خواتین اپنے ذاتی کاروبار سے وابستہ ہیں جنھوں نے چھوٹے پیمانے پر اپنے کاروبار کا آغاز کیا اور اب اکثر خواتین آن لائن بزنس چلارہی ہیں۔
نازش نے حال ہی میں اپنا ایک بیوٹی پارلر کھولا ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ بیوٹی پارلر میں ویسے تو کئی خواتین گاہک آرہی ہیں مگر جب سے انھوں نے اپنے اس بیوٹی پارلر کا ایک فیس بک پیج تخلیق کیا ہے، ان کی گاہکوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔ یوں انہیں سوشل میڈیا پر اہنے بزنس کی پروموشن کا اچھا نتیجہ حاصل ہورہا ہے۔
خواتین کا کہنا ہے کہ جہاں انھیں اپنے کاروباری کے فروغ میں کئی مسائل درپیش ہیں وہیں سوشل میڈیا پیجز پر موجود لوگوں کو موجودہ ایپلی کیشن کے بارے میں بتانا پڑتا ہے۔
ایک خاتون کا کہنا تھا کہ "اگر کوئی فیس بک استعمال کررہا ہے تو وہ گوگل پیج سے واقف نہیں اور ایسے ہی کئی افراد ہیں جو انٹرنیٹ پر ہر ایپلی کیشن استعمال کرنا ضروری نیں سمجھتے ہیں۔ ایسے میں ان کو دوسری ایپلی کیشن جوائن کروانے میں کافی محنت لگتی ہے۔"
فیس بک ٹوئٹر، گوگل، واٹس ایپ اور وائبر ایسی ایلپیکیشنز ہیں جن میں تمام پیجز کو ایک ساتھ لنک کرسکتے ہیں مگر ہر صارف کا ہر ایپلیکیشن پر ہونا ضروری نہیں لوگ اپنی مرضی سے ایپلی کیشن چنتے ہیں۔
'گوگل' بزنس گروپ، 'وومن کراچی' کے مینجر امتیاز نور نے 'وائس آف امریکہ' سے گفتگو میں کہا کہ اکثر خواتین اپنے کاروباری معاملات زیر بحث نہیں لاتی ہیں جس کیلئے ایسی آگاہی ورکشاپ اور کانفرنس معاون ثابت ہوتی ہیں جب خواتین ایک ساتھ مل کر بیٹھ کر معاملات اور اپنے کاروباری مسائل کے حل زیر بحث لائیں تو کوئی شک نہیں کہ کاروباری خواتین کے مسائل کافی حد تک حل ہوسکیں۔
پاکستان میں کاروباری مردوں کے مقابلے میں کاروباری خواتین کو درپیش چینلجز کے حوالے سے امتیاز نور کا کہنا تھا کہ مرد حضرات تو اپنے مسائل کھل کر شیئر کرتے ہیں جبکہ خواتین کو ہی کاروباری خواتین کے درمیان ان معاملات میں کافی خلا ہے جسے دور کرنےکی ضرورت ہے۔
ان کے بقول اگر کوئی خاتون کوئی کاروبار شروع کرنا چاہ رہی ہیں اور کئی مسائل ک باعث نہیں کرپارہی ہیں تو انھیں چاہئے کہ اپنے مسائل کو پیشہ ورانہ کاروباری خواتین کے ساتھ ملکر بات کرکے حل کریں۔
گوگل بزنس گروپ کی ٹیم لیڈر سلمی جعفری کا کہنا ہے کہ آن لائن طریقے سے بزنس کو پروموٹ کرنا آسان ہے وہاں آپ کو کئی ایسے افرادآن لائن ملتے ہیں جو کہ عملی زندگی میں نا مل پائیں اور اسکی جدید شکل اب موبائل فون ہے جہاں ہر ایپلی کیشن کا استعمال عام ہوتا جارہا ہے۔
دنیا کے سب سے مشہور سرچ انجن چلانے والی 'گوگل' کمپنی کی جانب سے خواتین کو انٹرنیٹ کے نئے طریقوں سے متعارف کرنے کیلئے ایک کانفرنس منعقد کی گئی جہاں چھوٹے پیمانے کا کاروبار کرنےوالی خواتین کی بڑی تعداد شریک ہوئی اور انھوں نے اپنے تجربات پیش کئے اور کئی مفید مشورے بھی حاصل کئے۔