ایسٹر دھماکوں کے بعد سری لنکا کی حکومت نے ملک بھر میں سوشل میڈیا پر لگائی جانے والی پابندیاں ختم کر دی ہیں۔
منگل کو سری لنکا کے صدر متھیری پالا سری سینا کی جانب سے جاری حکم نامے میں پابندیاں ہٹائے جانے کا اعلان کیا گیا۔
ایسٹر دھماکوں کے بعد افواہوں اور جعلی خبروں کی روک تھام کے لیے سری لنکن حکومت نے فیس بک، واٹس ایپ، ٹوئٹر سمیت دیگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس بند کر دی تھیں۔
سری لنکا میں 21 اپریل کو ہونے والے ایسٹر دھماکوں میں 253 افراد ہلاک جبکہ 500 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
سری لنکا کے صدر نے ہنگامی حالات کے تحت خود کو حاصل اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے یہ پابندیاں عائد کی تھیں۔
پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے سری لنکن صدر نے عوام سے اپیل کی ہے کہ وہ سوشل میڈیا کا ذمہ داری سے استعمال کریں۔
سری لنکن حکومت نے خبردار کیا ہے کہ ایسٹر دھماکوں میں ملوث افراد اب بھی موجود ہیں۔ دھماکوں کی ذمہ داری شدت پسند تنظم داعش نے قبول کی تھی۔
پیر کو دولت اسلامیہ کے رہنما ابوبکر البغدادی نے ویڈیو بیان کے ذریعے ایسٹر دھماکوں کو شام میں شکست کا بدلہ قرار دیا تھا۔
کولمبو کے آرک بشپ نے سری لنکن حکومت کو حملوں کی اطلاعات کے باوجود کارروائی نہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔ تاہم انہوں نے نقاب اوڑھنے پر پابندی کے حکومتی فیصلے کو سراہا ہے۔
سری لنکا میں ہونے والے دھماکوں کے بعد ملک بھر میں سیکورٹی تاحال ہائی الرٹ ہے۔ 10 ہزار سیکورٹی اہل کار ملک بھر میں سیکورٹی کے فرائض سرانجام دے رہے ہیں۔
سیکورٹی فورسز نے دھماکوں کے شبہے میں اب تک ایک سو سے زائد افراد کو حراست میں لیا ہے۔
چند روز قبل کولمبو کے نواح میں پولیس سے جھڑپ کے دوران 17 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ حکام نے دعوی کیا تھا کہ اس واقعے میں ایسٹر دھماکوں کا ماسٹر مائنڈ ظہران ہاشمی اور اس کے رشتہ دار ہلاک ہوئے۔
تاہم شدت پسند تنظیم داعش نے دعوی کیا تھا کہ کارروائی کے دوران اس کے تین خود کش بمباروں نے خود کو دھماکے سے اُڑا لیا تھا۔ جس سے 17 پولیس اہل کار ہلاک ہو گئے تھے۔