رسائی کے لنکس

فیس بک کا استعمال اور انسانی رویے پر اس کے اثرات


ایسے لوگ جو اپنا زیادہ تر وقت سماجی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں اُن کے تنہائی پسند ہوجانے کا رجحان پایا جاتا ہے

سماجی ویب سائٹ کا حصہ بننا ابتدا میں ہمارا شوق، پھر عادت اور اب مجبوری بنتا جارہا ہے۔

ہم میں سے بیشتر افراد کسی نہ کسی سماجی نیٹ ورک سے منسلک ہیں، خصوصاً نوجوانون کے لیے ایسی ویب سائٹس کا استعمال مصروفیت کا اہم ذریعہ سمجھی جاتی ہیں۔
ان سماجی ویب سائٹس کی مدد سے ہم دنیا کے کونے کونے میں موجود اپنے قریبی عزیز و اقارب اور دوستوں سے رابطے میں رہتے ہیں۔ لہذا، یہ ایک سستے اور تیز رفتار پیغام رسانی کا ذریعہ بنتا جاتا ہے، جبکہ خبریں جاننے کے لیے بھی ان دنوں سماجی ویب سائٹس کا استعمال آسان اور مقبول ذریعہ خیال کیا جاتا ہے۔
مگر کیا آپ کو معلوم ہے کہ سماجی رابطے کی ویب سائٹ 'فیس بک' کا استعمال آپ کو تنہائی پسند اور دکھی بھی بنا سکتا ہے؟
یا پھر آپ میں عداوت، حسد اور جلن جیسے منفی جذبات پیدا کر سکتا ہے ۔
گذشتہ دنوں جرمنی میں فیس بک کا استعمال کرنے والوں میں منفی رجحانات کا جائزہ لینے کے لیے ایک تحقیق ہوئی۔
تحقیق دانوں نے بتایا کہ فیس بک استعمال کرنے والوں کو اکثر اپنے دوستوں کی تفریحی مقامات کی تصاویر سے جلن محسوس ہوتی ہے، جہاں ان کا دوست بے فکری سے چھٹیاں گذارتا نظر آرہا ہو اور وہ خود کو لگی بندھی زندگی کا پابند پاتا ہے۔
جرمنی میں 'ہم بولٹ یونیورسٹی' اور 'ڈارم اسٹا ڈیٹس ٹیکنیکل یونیورسٹی' کے مشترکہ تعاون سے ایک تحقیق فیس بک استعمال کرنے والوں میں منفی رویہ کی وجوہات جاننے کے لیے کی گئی۔ اس تحقیق میں فیس بک استعمال کرنے والے 600 افراد کو شامل کیا گیا۔
تحقیق کا حصہ بننے والے افراد نے اس بات کا اعتراف کیا کہ اکثر ان میں فیس بک کے استعمال سے ناخوشی کے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ 36 فیصد لوگوں کے مطابق وہ کبھی کبھی فیس بک کے استعمال سے شدید دکھی ہوجاتے ہیں۔
محقیقین کی رائے میں ہر تین میں سے ایک شخص فیس بک کا استعمال کرنے کے بعد خود کو دکھی اور غیر مطمئن محسوس کرتا ہے۔
ایسے افراد جو سماجی ویب سائٹس پر کچھ پوسٹ نہیں کرتے، وہ دوستوں کے پوسٹ اور تصاویر دیکھ کر بھی افسردہ ہو جاتے ہیں۔
محقیقین کے مطابق جو باتیں لوگوں کے اندر سب سے زیادہ حسد اور جلن کا جذبہ ابھارتی ہیں ان میں دوستوں کی پکنک کی تصاویر، ان کا اپنی نجی کامیاب زندگی کے بارے میں تبصرہ، شاندار طرز زندگی، حتیٰ کہ ان کی سماجی ڈائری کی مصروفیات کا ذکر وغیرہ شامل ہیں۔
مثال کے طور پر تحقیق میں حصہ لینے والی ایک لڑکی نے بتایا کہ اسے یہ دیکھ کر بہت برا محسوس ہوا کہ اسکی دوست کو سالگرہ پر بہت زیادہ مبارکباد کے پیغامات ملے تھے، جبکہ اس کی سالگرہ بہت سے دوستوں کو یاد بھی نہیں رہی تھی۔
اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا ہے کہ اس سماجی ویب سائٹ سے بعض ایسےغیرجانبدار افراد بھی منسلک ہیں جو اپنی ذاتی زندگی کی سرگرمیوں سے دوستوں کو آگاہ نہیں کرنا چاہتے ہیں، وہ خود کبھی کوئی جملہ پوسٹ نہیں کرتے، ان کا مشغلہ دوسروں کے پوسٹ پڑھنا اور انکی تصویروں کو کلک کرنا ہوتا ہے۔
محقیقین کا کہنا ہے کہ ایسے لوگ جو اپنا زیادہ تر وقت سماجی ویب سائٹس پر گزارتے ہیں ان میں تنہائی پسند ہو جانے کا خطرہ پایا جاتا ہے۔ نتیجتاً وہ اپنی عام زندگی میں سماجی سرگرمیوں سے دور ہوتے جاتے ہیں۔
محقیقین کے مطابق 'فیس بک' پر زیادہ سے زیادہ ایک ہی طرح کے پوسٹ ارسال کرنے والے، دوستوں پر اپنی ایک مخصوص چھاپ دکھانے کی کوشش کرتے ہیں، یا وہ چاہتے ہیں کہ انھیں اپنےحلقہٴاحباب میں نمایاں مقام حاصل ہوجائے۔
فیس بک استعمال کرنے والوں نے محقیقین کو بتایا کہ فیس بک پر زیادہ سے زیادہ جملے اور تصاویر پوسٹ کرنے کا مقصد اپنے بارے میں لوگوں کی رائے جمع کرنا یا پھر اپنی مقبولیت کا درجہ جاننے کی کوشش کرنا بھی ہوتا ہے۔
دوسروں کی کامیاب پروفائل پڑھنے سے لوگوں میں اپنی زندگی سے شکایت پیدا ہو جاتی ہے۔ ان کے نزدیک فیس بک پر نظر آنے والی زندگی ہی ان کے دوست کی اصل زندگی کا چہرہ ہے جہاں وہ ایک مطمئن اور خوشحال زندگی گذار رہا ہے، حالاں کہ ہر انسان اپنی زندگی کے صرف انھی پہلوؤں کو دکھاتا ہے جو وہ دکھانا چاہتا ہے۔
تحقیق دانوں کے بقول، تحقیق کا نتیجہ بتاتا ہے کہ فیس بک کا استعمال کرنے والے لوگوں میں حسد اور جلن جیسا منفی رجحان عام ہوتا جارہا ہے۔
محقیقین کے نزدیک سماجی ویب سائٹس کا استعمال انسان کو تنہائی پسند بنا سکتا ہے۔ مگر یہی سائٹس مزاجاً تنہائی پسند شخص کے لیے ایک ایسی پرکشش جگہ بن جاتی ہے جہان وہ مزید تنہائی کا شکار ہوتا جاتا ہے۔
فیس بک استعمال کرنے کے کئی مثبت پہلو ہیں، جنھیں نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔

فیس بک نے ہزاروں میل دوری پر بسنے والوں کے ساتھ سماجی رابطے میں رہنا ممکن بنا دیا ہے۔



XS
SM
MD
LG