پاکستان کے صوبے سندھ کے صحرائی علاقے کی خواتین برسوں سے روزانہ کی بنیاد پر مٹی کے بھاری گھڑوں اوربرتنوں کو سر پر اٹھا کر کئی کئی میل پیدل سفر کر کے اپنے گھر وں کے لیے پانی لانے کی ذمہ داری نبھا رہی ہیں۔ لیکن اب سرکاری اور غیر سرکاری سطح پر ان کے گھروں کے قریب واٹر پمپس، سولر واٹر پمپس اور سولر کنووں کی تعمیر سےان کی برسو ں کی مشقت میں کمی کے ایک سلسلےکا آغاز ہو گیا ہے ۔
تھر کی خواتین اور لڑکیوں پر گھر میں صحت مند مردوں کے ہوتے ہوئے بھی برسوں سے دور دراز مقامات سےگھریلو ضروریات کا پانی لانے کی ذمہ داری مسلط ہے، جو ان کی صحت خاص طور پر حاملہ خواتین کے لیے بہت سے مسائل پیدا کر دیتی ہے، جب کہ لڑکیوں کو جو وقت اسکو ل میں تعلیم حاصل کرنے میں صرف کرنا چاہیے، وہ اپنی بزرگ خواتین کےساتھ پانی بھرنے میں صرف کرتی ہیں ۔
تھر کی خواتین کے اس مسئلے کے حل کےلیے سرکاری اورغیر سرکاری سطح پر ایک عرصے سے کوششیں جاری ہیں جن میں سے ایک ان کے گھروں کے قریب ہینڈ پمپس ، سولر واٹر پمپس اور سولر کنووں کی تعمیر ہے جن سے ان خواتین کی روزانہ کی مشقت میں کمی اور ان کی گھریلو ،معاشی اور معاشرتی زندگی میں تبدیلی کا سلسلہ شروع ہو رہا ہے ۔
وائس آف امریکہ نے تھرپار کے دور افتادہ علاقوں میں ان خواتین کے گھروں کے قریب شمسی توانائی سے چلنے والے واٹر پمپس اور کنووں کی تعمیر کے لیے کوشاں کچھ این جی اوز سے بات کی ۔
تھرپارکر میں ایک غیر سرکاری فلاحی تنظیم بانہہ بیلی سندھ کے13 ڈسٹرکٹس میں اور خاص طور پر تعلقہ نگرپارکر میں 1987 سے فلاحی سرگرمیوں میں مصروف ہے اوروہ وہاں کے دور افتادہ دیہاتوں میں پانی کی فراہمی کے مختلف پراجیکٹس مکمل کر چکی ہے جن میں ہینڈ واٹر پمپس، سولر واٹر پمپس ، تالاب ، چھوٹے ڈیم اور اور کنوؤں کی تعمیر شامل ہے ۔
تنظیم کے ڈائریکٹر یونس بندھانی نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا تھر ایک وسیع صحرائی علاقہ ہے اوریہاں کے لوگوں کی زندگی کا واحددارومدار بارش کے پانی پر ہے جو زمین میں جذب ہوتا ہے پھر اسے ہینڈ پمپس یا دوسرے ذرائع سے نکال کر استعمال کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ بارش کے پانی کو محفوظ کرنے کے لیے تھر میں سرکاری اور غیر سرکاری فلاحی تنظیموں نے تالاب، چھوٹے ڈیم ، اور واٹر ٹیکنس تعمیر کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے جہاں مون سون کے سیزن جون جولائی میں پانی کو محفوظ کر لیا جاتا ہے اور باقی سال اسے وہاں کے لوگوں کے پینے اور دوسری ضروریات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے 1987 سے 2005 تک نگر پارکر میں 1585 واٹر ٹینکس ،42 نئے کنویں، 75 ہینڈ پمپس ، 37 تالاب اور چھوٹے ڈیم تعمیر کیے اور 101 پرانے کنوؤں کو دوبارہ استعمال کے قابل بنایا ۔
یونس بندھانی کا کہنا تھا کہ ان پراجیکٹس سے علاقے کی 35ہزار خواتین اور لڑکیوں کی زندگیوں میں بہتری آئی ۔ گھروں کے نزدیک واقع ان کنوؤں، ہینڈ پمپس کی وجہ سے وہ روزانہ کئی کئی میل دور بھاری بھرکم گھڑے اور برتن سروں پر اٹھا کر پانی لانے کی مشقت سے بچ گئیں ۔ اور وہ لڑکیاں جو اپنی ماؤں کے ساتھ پانی لانے میں اپنا وقت صرف کرتی تھیں انہیں اسکولوں میں پڑھنےکا موقع مل گیا۔
ان کے گھروں کے مرد اس پانی کے استعمال سے کاشتکاری کرنے لگے اور ڈھکے ہوئے واٹر ٹینکس اور پانی کے کھلے ریزروائرز یا تالابوں کا پانی ان کے مال مویشیوں کے پانی اور چارے کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ چھوٹے پیمانے کی کاشتکاری کے کام آنے لگا۔ یونس بندھانی نے کہا اس کاشتکاری کے نتیجے میں انہیں اچھی خوراک ملنے لگی جب کہ لائیو اسٹاک کی فروخت سے ان کی گھریلو آمدنی میں اضافہ ہوا۔ اور خواتین اور بچوں کی صحت میں بہتری آنے لگی ۔
انہوں نے زور دے کر کہا کہ دور دراز کے آلودہ ذرائع سے لائے ہوئے پانی کی نسبت نلکوں کا یہ صاف پانی ان کی صحت کو بہتر بنارہا ہے ۔
ایک اور تنظیم افریڈیو نیو انڈس ، تھر میں پانی کی فراہمی سے منسلک فلاحی تنظیموں کے ساتھ مل کر کنویں کھدوانے اور سولر اور الیکٹرک واٹر پمپس لگوانے کے متعدد پراجیکٹس سے وابستہ رہ چکی ہے ۔ وی او اے سے بات کرتے ہوئے تنظیم کے بانی بلال چھارو نے بتایا کہ ان کی تنظیم 2019 سے اب تک تھر میں لگ بھگ 700 سے 800 ہینڈ پمپس اور متعد د واٹر ٹینکس اور سولر بجلی سے چلنے والے واٹر پمپس اور کنویں تعمیر کروا نے میں مدد کر چکی ہے ۔
انہوں نے بتایا کہ یہ کنویں اورواٹر پمپس عام طور پر تھر کی کسی بھی دور افتادہ کمیونٹی کے 30 سے 40 گھروں کے درمیان لگائے جاتے ہیں ۔ جس سے اس کمیونٹی کی خواتین کو اپنے گھروں کے پاس ہی پینے اور گھریلو ضروریات کے لیے کافی صاف پانی مل جاتا ہے اور انہیں برسوں کی اس تھکان میں کمی کے احساس سے سرشار کرتا ہے جو انہیں روزانہ بھاری گھڑوں اور برتنوں کو کئی کئی میل پیدل سفر کر کے دور دراز علاقوں سے پانی لانے سے ہوتی تھی ۔
بلال چھارو نے کہا کہ آج کل کئی مقامات پر کنویں صرف مال مویشیوں کو پانی پلانے یا زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہوتے ہیں جب کہ واٹر پمپس یا سولر پمپس کو لوگ پینے کے پانی کےلیے استعمال کرتے ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ دو تین سال سےان کے علاقے میں توجہ ہینڈپمپس ، سولر اور الیکٹریکل واٹرپمپس پر مرکوز ہے جب کہ جانوروں کے لیے الگ سے پانی کے تالاب بنائے جارہے ہیں ۔
ان کا مزید کہنا تھا ان کنوؤں، نلکوں اور سولر واٹر پمپس کی مالک وہ پوری کمیونٹی ہوتی ہے جسے ان کی حفاظت کی تربیت دی جاتی ہے جو انہیں مل کر چلاتی ہے اور اس کی حفاظت کرتی ہے ۔
تھر میں ایک اور تنظیم کنواں فاؤنڈیشن ایک عرصے سے تھر کی انتہائی غریب اور کمزور ترین کمیونٹی خاص طور پر خواتین کی زندگیوں میں مستقل اور دیرپا تبدیلیاں لانے کے لیے پائیدار حل تلاش کرنے میں کوشاں ہے ۔
تنظیم کے بانی ذوالفقار عالم نے کنوؤں کی کھدائی اور تعمیر کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ کنویں زمین میں 250-450 فٹ پائپ کی بورنگ پر مشتمل ہوتے ہیں جن سے سولر پینل سے چلنے والی واٹر مشین کے ذریعے پانی نکالا جاتا ہے۔ اس پانی کو اسٹوریج ٹینک میں جمع کیا جاتا ہے جہاں سے لوگ اسے حاصل کرتے ہیں ۔
انہوں نے اپنی تنظیم کی کارکردگی پرروشنی ڈالتے ہوئے وی او اے کو بتایا کہ ان کی تنظیم اب تک تھر کے دورافتادہ دیہاتوں میں 85 کنویں مکمل کر چکی ہے جن سے 5100 خاندانوں کے 32000 افراد مستفید ہورہے ہیں ۔ جب کہ پارلو ڈیپلو تھر پارکر کے گاؤں سارنگ کاریویری میں لگنے والے 84ویں کنویں پر سولر پمپ لگوانے کا کام شروع ہو گیا ہے
انہوں نے بتایا کہ ان کی تنظیم نے 2022 کی آخری سہ ماہی میں تھر کے گاؤں گنگالاس ، تعلقہ ڈیپلو تھرپارکر میں موسم گرما کا ایک کنواں تعمیر کیا جس سے دو ایکڑ اراضی کی کاشت کے لیے بھی استعمال کیا گیا ۔ اس پر ساڑھے تین لاکھ روپے لاگت آئی ۔اور اس سے دیہاتیوں نے دو ایکڑ سے زیادہ زمین پر مختلف سبزیاں بھی اگائیں ۔
ذوالفقار عالم نے اس ضمن میں حکومت کی کارکردگی پر بات کرتے ہوئے کہا کہ اگر چہ حکومت سندھ کی جانب سے تھر میں ہر سال پانی کے کنوؤں ، تالابوں ، واٹر پمپس ، اور سولر واٹر پمپس اور کنوؤں کو چلانے کے لیے سولر پینلز لگانے پر رقم خرچ کی جاتی ہے لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ اس سلسلے میں ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے تاکہ تھر کی خواتین اور بچیوں کی زندگیوں میں بہتری کا جو پہیہ چلنا شروع ہوا ہے وہ مزید تیز ہو اور تھر کے ہر ہر گاؤں کی ہر ہر عورت اور لڑکی کے لیے اپنی بنیادی ضرورت پانی ہی نہیں بلکہ دوسری بنیادی ضروریات کی فراہمی بھی ہو سکے ۔وہ اپنی فصلیں کاشت کر سکیں اور اپنی خوراک کی ضروریات پوری کر سکیں ۔ انہوں نے کہا کہ تھر میں ان کے لگائے ہوئے کنویں کے پانی سے تھر کے دیہاتیوں نے فروری 2023 میں 4200 کلو گندم کی کٹائی کی تھی ۔
پاکستان میں پانی کی فراہمی کےلیے کام کرنے والی ایک اور تنظیم پانی پراجیکٹ ہے جسے 2017 میں پاکستانی امریکی نوجوانوں کے ایک گروپ نے قائم کیا تھا۔ یہ تنظیم پاکستان بھر کے 15 اضلاع میں 15 ہزار کنویں تعمیر کر چکی ہے ۔ پاکستان میں تنظیم کے پانی پراجیکٹ کے مینیجر ممتاز علی نے حیدرآباد سے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی تنظیم فاسٹررورل ڈویولپمنٹ پروگرام ، کے ساتھ مل کر کام کرتی ہے اور 2017 سے اب تک تھر پار کر میں گہرے پانی کے 3500 سے زیادہ اور شمسی توانائی سے چلنے والے 63 کنویں تعمیر کر چکی ہے ۔
تھر میں سرکاری سطح پر ہونے والی کوششوں کے بارے میں وائس آف امریکہ کو متعدد سرکاری عہدے داروں سے متعددبار رابطے کے باوجود کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔
پانی پراجیکٹ کے امتیاز علی، بانہہ بیلی کے یونس بندھانی، کنواں فاؤنڈیشن کے ْذوالفقار اور افریدیو نیو انڈس کے بلال چھارو کا کہنا تھا کہ تھر میں سولر کنوؤں ، سولر واٹر پمپس اور پانی کے دوسرے پراجیکٹس تعمیر کرنے والی این جی او ز کی شب و روز کی محنت سے تھر کے صحرائی باشندوں خاص طور پر خواتین اور لْڑکیوں کی زندگیوں میں تبدیلی کا ایک سلسلہ شروع ہو چکا ہےجس میں مزید تیزی لانے کی ضرورت ہے ۔
انہوں نے کہا کہ تھر کی خواتین اور بچیوں کو ان کے گھر وں کے قریب پانی پہنچانے سے متعلق مختلف فلاحی اداروں کی یہ کوششیں بہت چھوٹے پیمانے کی ہیں لیکن ان سے تھر کے ہزاروں باشندوں کی زندگیوں میں ظاہر ہونے والی تبدیلی اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ اگر حکومت کی مزید منصوبہ بندی اور مزید توجہ اس جانب مبذول ہو تو برسوں سے پس ماندگی کے شکار صحرائے تھر کے باسیوں خاص طور پر خواتین اور لڑکیوں کے گھر آنگن خوشیوں اور مسرتوں کے پھولوں سے مہک سکتے ہیں ۔
بانھ بیلی کے ڈائریکٹر یونس بندھانی کا کہنا تھا کہ سولر واٹر پمپس اور سولر توانائی کے پراجیکٹس کی وجہ سے تھر میں سینکڑوں برسوں میں یہ خواتین خاص طور پر لڑکیوں کی پہلی نسل ہو گی جسے تپتی دھوپ میں پانی لانے کے لیے پانی کے گھڑوں اور برتنوں کو سروں پررکھ کر میلوں پیدل سفر کی مشقت نہیں کرنی پڑے گی،جو اپنے اسکول جانے کی عمر میں تعلیم حاصل کرنے کا موقع حاصل کر سکے گی ، بہتر خوراک اور بہتر صحت کے ساتھ زندگی گزارے گی ۔ اور یوں تھر میں ایک تعلیم یافتہ اور خوشحال نئی نسل پروان چڑھ سکے گی ۔