واشنگٹن —
برطانیہ کی سابق نوآبادیات کی نمائندہ تنظیم 'کامن ویلتھ' کا سربراہی اجلاس رواں ہفتے سری لنکا میں ہورہا ہے جس کی تیاریاں آخری مراحل میں داخل ہوگئی ہیں۔
لیکن جہاں سری لنکن حکومت اور عوام اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہوئے اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں، وہیں بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے سبب یہ اجلاس سری لنکا کی حکومت کے لیے باعثِ پریشانی بھی بنا ہوا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی افواج پر لگنے والے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات کے باعث کولمبو حکومت کو اس اہم بین الاقوامی فورم کی میزبانی نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا الزام ہے کہ سری لنکن حکومت کی جانب سے 2009ء میں تامل باغیوں کے خلاف کی جانے والی فیصلہ کن کاروائی کے دوران میں 40 ہزار عام شہری بھی مارے گئے تھے۔
اس کاروائی کے نتیجے میں سری لنکا کی تامل اقلیتی آبادی کی 30 سال سے جاری علیحدگی کی مسلح تحریک کا توخاتمہ ہوگیا تھا لیکن، عالمی اداروں کے بقول، تامل باشندوں کو اس فوجی کاروائی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔
عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کی ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس کاروائی کے دوران میں سری لنکن فوجیوں نے نہ صرف شہری آبادیوں اور اسپتالوں پر جان بوجھ کر بمباری کی تھی بلکہ عام شہریوں کے اغوا، صحافیوں پر حملے اور حراست میں لیے جانے والے افراد پر بہیمانہ تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے تھے۔
سری لنکا کی حکومت نہ صرف ان الزامات کی صحت سے انکاری ہے بلکہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے دعووں کی آزادانہ تحقیقات کرانے پر بھی آمادہ نہیں جس پر اسے کئی عالمی اداروں اور مغربی ممالک کی حکومتوں کی تنقید کا سامنا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ سری لنکن حکومت پر "کئی سنجیدہ سوالات" کا جواب واجب ہے لیکن انہوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے ہر دو سال بعد ہونے والے 'کامن ویلتھ' کے سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہونے کے مطالبات کو رد کردیا ہے۔
تاہم کینیڈا کے وزیرِاعظم اسٹیفن ہارپر نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ان الزامات کے پیشِ نظر سربراہی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جب کہ بھارتی حکام کا کہناہے کہ وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے بھی کولمبو میں ہونے والے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ تامل باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھارت میں بھی آباد ہے جو سری لنکا میں اپنے ہم نسل افراد کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ افریقی ملک گیمبیا کی حکومت نے 'کامن ویلتھ' کو "نو آبادیاتی ادارہ" قرار دیتے ہوئے اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
اس 53 رکنی تنظیم کا قیام 62 سال قبل عمل میں آیا تھا اور برطانیہ کی 87 سالہ ملکہ اس تنظیم کی سربراہ ہیں۔ لیکن خرابی صحت کے باعث اس سال سربراہی اجلاس میں ان کی نمائندگی ان کے صاحبزادے پرنس چارلس کریں گے۔
لیکن جہاں سری لنکن حکومت اور عوام اس سربراہی اجلاس کی میزبانی کو اپنے لیے ایک اعزاز سمجھتے ہوئے اس کی تیاریوں میں مصروف ہیں، وہیں بعض حلقوں کی جانب سے اٹھائے جانے والے اعتراضات کے سبب یہ اجلاس سری لنکا کی حکومت کے لیے باعثِ پریشانی بھی بنا ہوا ہے۔
ناقدین کا کہنا ہے کہ سری لنکا کی افواج پر لگنے والے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے الزامات کے باعث کولمبو حکومت کو اس اہم بین الاقوامی فورم کی میزبانی نہیں دی جانی چاہیے تھی۔
انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کا الزام ہے کہ سری لنکن حکومت کی جانب سے 2009ء میں تامل باغیوں کے خلاف کی جانے والی فیصلہ کن کاروائی کے دوران میں 40 ہزار عام شہری بھی مارے گئے تھے۔
اس کاروائی کے نتیجے میں سری لنکا کی تامل اقلیتی آبادی کی 30 سال سے جاری علیحدگی کی مسلح تحریک کا توخاتمہ ہوگیا تھا لیکن، عالمی اداروں کے بقول، تامل باشندوں کو اس فوجی کاروائی کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑی تھی۔
عالمی تنظیم 'ایمنسٹی انٹرنیشنل' کی ایک عہدیدار کا کہنا ہے کہ اس کاروائی کے دوران میں سری لنکن فوجیوں نے نہ صرف شہری آبادیوں اور اسپتالوں پر جان بوجھ کر بمباری کی تھی بلکہ عام شہریوں کے اغوا، صحافیوں پر حملے اور حراست میں لیے جانے والے افراد پر بہیمانہ تشدد کے الزامات بھی سامنے آئے تھے۔
سری لنکا کی حکومت نہ صرف ان الزامات کی صحت سے انکاری ہے بلکہ انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کے دعووں کی آزادانہ تحقیقات کرانے پر بھی آمادہ نہیں جس پر اسے کئی عالمی اداروں اور مغربی ممالک کی حکومتوں کی تنقید کا سامنا ہے۔
برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا ہے کہ سری لنکن حکومت پر "کئی سنجیدہ سوالات" کا جواب واجب ہے لیکن انہوں نے مختلف حلقوں کی جانب سے ہر دو سال بعد ہونے والے 'کامن ویلتھ' کے سربراہی اجلاس میں شریک نہ ہونے کے مطالبات کو رد کردیا ہے۔
تاہم کینیڈا کے وزیرِاعظم اسٹیفن ہارپر نے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے ان الزامات کے پیشِ نظر سربراہی اجلاس کے بائیکاٹ کا اعلان کیا ہے جب کہ بھارتی حکام کا کہناہے کہ وزیرِاعظم من موہن سنگھ نے بھی کولمبو میں ہونے والے اجلاس میں شریک نہ ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔
خیال رہے کہ تامل باشندوں کی ایک بڑی تعداد بھارت میں بھی آباد ہے جو سری لنکا میں اپنے ہم نسل افراد کے ساتھ روا رکھے جانے والے سلوک پر احتجاج کرتے رہے ہیں۔
اس سے قبل گزشتہ ماہ افریقی ملک گیمبیا کی حکومت نے 'کامن ویلتھ' کو "نو آبادیاتی ادارہ" قرار دیتے ہوئے اس کی رکنیت چھوڑنے کا اعلان کیا تھا۔
اس 53 رکنی تنظیم کا قیام 62 سال قبل عمل میں آیا تھا اور برطانیہ کی 87 سالہ ملکہ اس تنظیم کی سربراہ ہیں۔ لیکن خرابی صحت کے باعث اس سال سربراہی اجلاس میں ان کی نمائندگی ان کے صاحبزادے پرنس چارلس کریں گے۔