نور زاہد
داستان کی سی بدنامی پانے والے ازبک شدت پسند کمانڈر کا بیٹا شمالی افغانستان میں ازبک مرد حضرات کو داعش میں شامل کرنے پر قائل کرتا رہا ہے۔ یہ بات شمالی صوبہٴ سرائے پُل کے اہل کاروں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتائی ہے۔
اُنھوں نے بتایا کہ عبد الرحمٰن یلداش، کنارہ کش، روپوش شخص ہے، جو افغانستان کے شمالی صوبوں میں داعش کے قدم جمانے میں مدد فراہم کرتا رہا ہے، جو اُس کے آبائی ازبکستان کی سرحد سے ملنے والا خطہ ہے۔ اہل کار یقین سے کچھ نہیں کہہ سکتے آیا وہ کس مقام پر موجود رہا ہے، اور کس طرح چابکدستی سے کام دکھاتا رہا ہے۔
تاہم، حکام کا کہنا ہے کہ اُنھیں ’’موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق، طاہر یلداش کے بیٹے کو کچھ دیہات میں دیکھا گیا ہے‘‘۔ یہ بات کشیدگی کے شکار شمالی صوبہٴ سرائے پُل کے گورنر، ظاہر وحدت نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتائی ہے۔
طاہر یلداش ازبکستان کی اسلامی تحریک (آئی ایم یو) کا شریک بانی اور سرغنہ رہ چکا ہے، جو سماجی مذہبی گروہ تھا، جو اسلامی بنیاد پرستی کی جانب مائل ہوا۔
تجزیہ کاروں کے مطابق، یہ تحریک 1990ء کی دہائی کے وسط میں قائم ہوئی، جس میں متعدد وسط ایشیائی ملکوں کے لڑاکے شامل تھے، جو تاجکستان کے اندر موجود اڈوں اور طالبان کنٹرول والے دور کے افغانستان میں کارروائیاں کیا کرتی تھی۔
کسی وقت طالبان کے ٹھوس اتحادی رہنے والی ’ازبکستان اسلامی تحریک‘ بعد میں القاعدہ اور اُس کے رہنما، اسامہ بن لادن کے ساتھ قریبی تعلق میں آئی۔
سنہ 2001 میں طالبان کو ہٹائے جانے کے بعد، طاہر یلداش اور اُن کے پیرو کار پاکستان کے قبائلی علاقوں میں جا بسے، جو افغان سرحد کے ساتھ واقع ہیں۔ تاہم، اُن کا مقامی قبائل سے تنازعہ ہوا جس کا سبب یہ الزام تھا کہ یلداش نے مقامی لوگوں پر انتہاپسندی کے طور طریقے نافذ کرنا چاہے، جن میں خواتین بھی شامل تھیں، جنھیں فوجی تربیت کے لیے بھرتی کیا گیا۔
طاہر یلداش کے لوگوں کی مقامی شدت پسند گروپوں کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں، اور اُن پر متعدد قبائلی عمائدین کو ہلاک کرنے کا الزام لگا، جس کے بعد سنہ 2007 میں آخرِ کار اُنھیں افغانستان کے صوبہٴ زابل جانا پڑا۔ اطلاعات کے مطابق، اگست 2009ء میں ہونے والے ایک امریکی ڈرون حملے میں، طاہر یلداش ہلاک ہوا۔
نوجوان یلداش کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں، لیکن بتایا جاتا ہے کہ اُن کے واید کی ہلاکت کے بعد وہ پاکستان کے جنوبی بندرگاہ والے شہر، کراچی میں رہتے رہے۔
واحد مزدا، کابل میں طالبان سے متعلق تجزیہ کار ہیں۔ اُنھوں نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ ’’وہ کراچی میں رہا کرتے تھے اور عین ممکن ہے کہ وہ اب بھی وہیں رہتے ہوں‘‘۔
یلداش دو بار سرائے پُل کے سید ضلعے جا چکے ہیں، جہاں اُنھوں نے داعش کے لیے بھرتی کا کام کیا۔ یہ بات سکیورٹی پر مامور مقامی اہل کاروں نے ’وائس آف امریکہ‘ کی افغان سروس کو بتائی۔
اہل کاروں نے بتایا کہ متعدد شدت پسند جو اِس سے قبل، طالبان کے ساتھ ہوا کرتے تھے، اب وہ علاقے میں داعش کے لیے کام کرنے پر تیار لگتے ہیں۔
تجزیہ کار، مزدا کے مطابق، افغانستان کے شمالی علاقوں کے ازبک لڑاکے طالبان کو چھوڑ کر دولت اسلامیہ میں شامل ہو رہے ہیں، جس دعوے کی طالبان نے تردید کی ہے۔
مزدا نے کہا ہے کہ ’ازبکستان اسلامی تحریک‘ اب تین چھوٹے گروہوں میں بٹ چکی ہے؛ جن میں سے ایک گروپ داعش سے وفادار ہے۔